مصطفےٰ یشل ترکی کی رائٹرز اینڈ جرنلسٹس فاؤنڈیشن کے سربراہ ہیں جس کے اعزازی صدر فتح اللہ گولن ہیںحذمت تحریک اور ترکی کی بر سر اقتدار اے کے پارٹی کے درمیان جاری تنائو کے بارے میں پاکستانی میڈیا میں مختلف آرا آ رہی ہیں۔ زیر نظر آرٹیکل اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو دوسرا نقطہ نظر سمجھنے کے لئے قارئین کے ذوقِ مطالعہ کی نذر کیا جا رہا ہے۔
ترکی کے وزیر اعظم طیب اردوان کی جانب سے لگائے جانے والے تمام الزامات محض سیاسی عناد کی بنیاد پر لگائے جا رہے ہیں ان کا حقیقت سے کچھ تعلق نہیں ہے۔یہ تمام الزامات وزیر اعظم اردوان کے دور کے مالیاتی اسکینڈل کی تحقیقات کی اہمیت گھٹانے کے لئے لگائے جا رہے ہیں اور یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ ان کے پیچھے حذمت تحریک کا ہاتھ ہےحالانکہ حالیہ مالیاتی اسکینڈل کا کیس سابقہ کیسوں کی مانند ہے۔ درحقیقت یہ کرپشن ان تحقیقات کے نتیجے میں سامنے آئی ہے جو گزشتہ دو ایک برسوں سے وزیراعظم اردوان کے خلاف جاری تھی۔ جیسا کہ ماضی میں بھی حذمت تحریک کو نشانہ بنانے کی مذموم کوششیں کی گئیں، مالیاتی بدعنوانی کا کیس سامنے آتے ہی میڈیا کے چند لوگ اسی نوعیت کے الزامات لگانے کے لئے سامنے آگئے۔ اس سے قبل بھی ملک میں کام کرنے والی ایک بدنام خفیہ تنظیم کو جو جمہوری طور پر منتخب حکومت کے خاتمے کے لئے کام کررہی تھی اور جو کہ اس بالیوز بغاوت منصوبے کی خالق تھی کہ جو 2003میں پرتشدد کارروائیوں کے ذریعے اے کے پارٹی کی حکومت کو ختم کرنے کے لئے بنایا گیا تھا۔ اس وقت بھی چند گروپوں نے کوشش کی تھی کہ تحقیقات میں شامل پولیس افسران، پراسیکیوٹر اور ججوں کا تعلق حذمت تحریک سے ثابت کیا جاسکے۔ اسی طرح آج بھی مالیاتی بدعنوانی کی تحقیقات کو یہ کہہ کر غیر اہم بنانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اس کے پیچھے حذمت تحریک ہے۔جبکہ حذمت تحریک ایک سول تحریک ہے۔ اس کی کوئی پولیس فورس یا عدلیہ نہیں ہے اسی طرح بشمول سپریم بورڈ آف ججز اینڈ پراسیکیوٹرز بھی حکومت کی جانب سے کنٹرول اورنظر ثانی کے لئے کھلی ہے۔ یہ بات خام خیالی ہے کہ اس آپریشن کے متعلق یہ الزام لگایا جائے کہ اس کے پیچھے ایک سول ادارہ ہے۔ اب تک اس کے متعلق کوئی ٹھوس ثبوت بھی فراہم نہیں کیے جاسکے۔ اس دعوے کو ثابت کرنے کے لئے ایک بھی قانونی کیس دائر نہیں کیا جاسکا۔
دوسری جانب اے کے پارٹی کا بنیادی ردعمل عدالتی تحقیقات کو نظریاتی رنگ دینا تھا۔ جبکہ حکومت کے حامی میڈیا نے اس آپریشن کے تانے بانے بھی حذمت تحریک سے جوڑنے کی کوشش کی اور کچھ تعلقات سامنے لانے کا دعویٰ بھی کیا مگر ان میں سے کوئی تعلق بھی ثبوتوں اور شواہد کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتا۔جہاں تک حذمت تحریک کا تعلق ہے تو یہ نہ تو کبھی رجب طیب اردوان کی اے کے پارٹی کو تقسیم کرنے یا کمزور کرنے میں ملوث رہی ہے اور نہ ہی اس نے کوئی سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ نہ کبھی ماضی میں ، نہ ہی حال میں اور نہ کبھی مستقبل میں ایسے مقصد کی خواہش مند ہے۔حذمت تحریک ہمیشہ ہی سےعدم تشدد پر کاربند رہی ہے اور تقریباً 60برسوں سے اپنے قیام سے لے کر اب تک مکمل طورپر قانون پر عمل کرنے والی تحریک ہے۔ اس نے کبھی بھی تنازعات کی حمات نہیں کی۔ جہاں تک ’’ماوی مرمرہ‘‘ کے واقعہ کا تعلق ہے کہ جب 2010میں غزہ جانے والے امدادی فلوٹیلا پر اسرائیلی حملہ کے نتیجہ میں نو ترک شہری ہلاک ہوگئے تھے ،افلاس کے مارے غزہ کے عوام کے لئے انسانی امداد لے کر جانا قابل تعریف ہے۔ تاہم اس مہم نے تناؤ کی فضا قائم کردی تھی اور درحقیقت اے کے پارٹی کے چند ممبران پارلیمنٹ جو اس کا حصہ بننے کا ارادہ رکھتے تھے، آخری لمحات میں اس مہم میں شامل نہ ہوئے۔اسرائیل کی غیر انسانی پالیسیوں پر تنقید کی جاسکتی ہے اور اسرائیل کی سرگرمیوں اور فلسطینیوں کے ساتھ ان کے مسائل پر مختلف طریقوں سے بات کی جاسکتی ہے تاہم اس مہم کا خاتمہ افسوسناک واقعات پر ہوا۔ نو ترک شہری اسرائیل کی جانب سے بین الااقوامی پانیوں میں ناجائز مداخلت کے باعث ہلاک ہوگئے اور گولن نے انتقال کرجانے والوں کو شہید کہہ کر تعزیت کا اظہار کیا ۔اگرچہ اس واقعے کے نتیجے میں ترک اسرائیل تعلقات میں تناؤ پیدا ہوا تاہم ترک اور اسرائیلی حکومتیں اس بحران کے خاتمے کے لئے مسلسل رابطے میں رہیں اور بعد میں امریکی صدر بارک اوباما کی مداخلت پر اسرائیل نے ترکی سے معافی مانگ لی، تاہم اب بھی دونوں ملکوں کے درمیان اس بات پر بحث جاری ہے کہ تعلقات اور جانی نقصان کا ازالہ کیونکر کیا جائے۔اس وقت فتح اللہ گولن نے کہا تھا کہ غزہ کے لئے انسانی امداد کسی بھی تنازعہ میں پڑے بغیر لے جائی جائے، مسئلے کا حل سفارتی ذرائع سے اور کسی بھی جھگڑے میں پڑے بغیر نکالا جاسکتا تھا۔لیکن گولن کے الفاظ کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ۔اگر آپ کی نیت انسانی امداد کی ہو تو آپ کو نئے تنازعات کو جنم نہیں دینا چاہیے۔دراصل ان حالات کے تناظر میں ہم دیکھتے ہیں جس قسم کے رویے پر گولن نے تنقید کی وہ نو ترک شہریوں کی ہلاکت کا باعث بن گیا۔ طویل مدت سے گہرائی تک جڑیں پکڑے ہوئے نیٹ ورک عوام کی نظروں میں حذمت تحریک کو گرا دینے کے خواہاں ہیں۔ اب یہ بات نہایت ناانصافی پر مبنی ہے اور ایک کھلا بہتان ہے کہ کچھ مذہبی گروہ ماوی مرمرہ پر گولن کی تنقید کو بنیاد بنا کر حذمت تحریک کی خودمختاری اور اس کی اسلام اور ترکی سے وفاداری کے متعلق شکوک و شبہات پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں۔
حذمت تحریک کے خلاف ایک بےبنیاد پروپیگنڈہ یہ کیا جاتا ہے کہ اس نے ریاست کے اندر ایک ریاست قائم کر رکھی ہے جبکہ یہ صرف ایک ایسا نیٹ ورک ہےجسے خصوصی اہداف و مقاصد کے حصول کے لئے قائم کیا گیا ، جس کی جڑیں حکومت کے اندر ہیں۔ یہ سب الزامات ہیں۔حذمت تحریک ایک سول ادارہ ہے کہ جس کا مقصد پوری دنیا میں امن کو فروغ دینا ہے، انسانیت کی خدمت کرنا اور بین الااقوامی حلقوں میں ترکی کے مفادات کو فروغ دینا ہے۔ یہ اپنی سرگرمیاں رضا کاروں کے ذریعے جاری رکھتی ہے۔یقیناًحذمت تحریک کے پیروکاروں میں بیوروکریٹ اور سرکاری ملازمین بھی ہوسکتے ہیں کہ جو مختلف عہدوں پر کام کررہے ہوں ۔ان لوگوں کی حذمت تحریک سے ہمدردی ایک الگ بات ہے لیکن ایک واضح نیٹ ورک کی حیثیت سے ریاست کے اندر مختلف مقاصد کے لئے کام کرنا محض الزام ہے۔ ماضی میں بھی گولن پر اسی نوعیت کے ا لزمات لگائے جاتے رہے ہیں اور 1999سے 2008تک ان پر متوازی ریاست چلانے کے الزام میں مقدمہ چلایا جاتا رہا ہے مگر وہ ان تمام الزمات سے باعزت بری ہوگئے اگر ان نو برسوں میں استغاثہ کو کوئی معمولی سا ثبوت بھی مل جاتا تو گولن کبھی باعزت بری نہ ہوپاتے۔
ایسا کیونکر ممکن ہے کہ وہ متوازی ریاست کہ جس کا سراغ2008تک نہیں مل سکا 2008کے بعد اچانک آسمان سے نازل ہوگئی مزید یہ کہ وزیر اعظم بیوروکریسی سے ابھی گزشتہ برس اس وقت سے تو نہیں ملے کہ جب سے متوازی حکومت کے الزمات پرمبنی باتیں شروع ہوئی ہیں حکومت ان بیوروکریٹس کے ساتھ پچھلے دس برس سے کام کررہی ہے اگر ایسا کوئی نیٹ ورک ہوتا تو اب تک تار تار ہوچکا ہوتا۔اسی طرح گزشتہ دنوں ترک وزیراعظم اور امریکی صدر باراک اوباما کی ٹیلی فونک گفتگو کے بعد بھی کچھ افواہیں گردش میں آئیں کہ ترک وزیر اعظم نے امریکی صدر کو امریکہ میں مقیم فتح اللہ گولن کے بارے میں شکایت کی ہےحالانکہ اس ساری گفتگو میں فتح اللہ گولن کا نام قطعی طور پر زیر گفتگو نہیں آیا اس حوالے سے ساری قیاس آرائیاں بے بنیاد ہیں۔اب جہاں تک بات ہے انٹرنیٹ پر موجود ویڈیو اور ٹیلی فون ریکارڈنگز کی تو اس بارے میں کسی شک و شبے کے بغیر یہ کہا جا سکتا ہے کہ حذمت تحریک اور فتح اللہ گولن کا اس سے دور دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے۔یہ خالصتاً ایک قانونی اور بنیادی انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔ ترکی کے قانون کے مطابق پراسیکیوٹرز کی اجازت سے ہی پولیس کسی شخص کا ٹیلی فون ریکارڈ کرسکتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کا کوئی اور طریقہ کار یا راستہ نہیں ہے۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس میں حذمت تحریک یا فتح اللہ گولن کا کوئی کردار نہیں۔