تفہیم المسائل
سوال: بازار میں عام طور پر سب سے زیادہ فروخت ہونے والی فنگر فش کے بارے میں یہ معلوم ہوا ہے کہ اِسے مگرا مچھلی جسے شارک بھی کہتے ہیں، سے بنائی جاتی ہے۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ مگرا کا کھانا مکروہ ہے ،اس بابت شرعی رہنمائی فرمائیں، (حافظ محمد شعیب، کراچی)
جواب: فقہائے اَحناف کے نزدیک پانی کے جانوروں میں صرف مچھلی کھانا جائز ہے، علامہ علاء الدین کاسانی حنفی لکھتے ہیں : ترجمہ:’’ جہاں تک سمندر ی جانوروں کا تعلق ہے تومچھلی کے سوا سمندر کے تمام جانوروں کا کھانا حرام ہے، سوائے مچھلی کے کہ اس کا کھانا حلال ہے ، البتہ جو مچھلی مر کر پانی پر تیر رہی ہو(وہ حرام ہے) اور یہی ہمارے اصحاب رضی اللہ عنہم کا قول ہے ،(بدائع الصنائع،جلد5، ص:35)‘‘ ۔
دنیا بھر میں مچھلیوں کی بے شمار اقسام ہیں ،صحابۂ کرامؓ کا عنبر نامی بہت بڑی مچھلی کا کھانا احادیث میں مذکور ہے، وہ اتنی بڑی مچھلی تھی کہ ڈھائی سو صحابۂ کرامؓ نے تقریباً 15یوم تک اس کا گوشت کھایا۔ امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کی ، اس کے الفاظ یہ ہیں: ترجمہ:’’ وہ پہاڑکی مثل ایک مچھلی تھی ، (صحیح بخاری : 2483)‘‘۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ترجمہ :’’ ہم نے جیش الخبط کے لیے تیاری کی اور ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو ہمارا امیر مقرر کیا گیا، ہمیں اس دوران شدید بھوک کا سامنا کرنا پڑا، تو سمندر نے بہت بڑی مچھلی کنارے لگا دی، ہم نے اتنی بڑی مچھلی کبھی نہیں دیکھی تھی، اسے ’’عنبر‘‘کہا جاتا تھا، ہم نے آدھا مہینہ اس کا گوشت کھایا اور ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس کا ایک کانٹا پکڑ کر(کھڑا کردیا) تو ایک سوار آدمی اس کے نیچے سے گزر گیا، (راوی بیان کرتے ہیں: )مجھے ابو زبیر نے کہا: میں نے جابر رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا: ابو عبیدہ نے ہمیں کہا:’’مچھلی کو کھاؤ‘‘جب ہم مدینہ آئے تو ہم نے یہ سارا ماجرا آپ ﷺ کو بھی بیان کیا، تو آپ نے فرمایا:’’اسے کھاؤ، یہ اللہ کی طرف سے تمہارے لیے رزق ہے اور اگر اس میں سے کچھ بچا ہوا ہو تو ہمیں بھی کھلاؤ تو صحابہ کرامؓ نے اپنے پاس بچا ہوا گوشت پیش کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تناول فرمایا،(صحیح بخاری:4362)‘‘۔
علامہ دمیری رحمہ اللہ نے ’’ حیات الحیوان‘‘میں شارک (مگرا )کو مچھلی کی قسم قراردے کر حلال قرار دیا :ترجمہ:’’ (بحری جانور) قِرشْ : قاف کے کسرہ اور را کے سکون کے ساتھ ، آخر میں شین معجم ،یہ بحری جانوروں میں سب سے بڑا جانور ہے ، جو کشتیوں کو سمندر میں چلنے سے روکتا ہے اور اُن کو ٹکریں مار مار کر توڑ دیتا ہے ‘‘۔ مزید لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ ہمارے شیخ جمال الدین اسنوی نے ’’قِرش‘‘ کے حلال ہونے کا فتویٰ دیا ہے ، ابن الاثیر کی ’’نھایہ ‘‘میں بھی قِرش کے حلال ہونے کی تصریح ہے ‘‘۔
آگے چل کر لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ حاصل کلام یہ ہےکہ جمہور کا بیانِ حِلّت ، امام شافعی کی تصریح اور قرآن کی آیات ،سبھی’’ قِرْش ‘‘کے حلال ہونے پر دلالت کرتی ہیں، یہ مچھلی کی ایک قسم ہے اور ایسا حیوان ہے ، جو صرف پانی میں رہتا ہے ۔ امام نووی نے ’’شرح المُھذّب ‘‘ میں بیان کیاہے: یہ صحیح ہے کہ ہر دریائی جانور حلال ہے اور علمائے کرام نے جو استثنیٰ کیاہے ،وہ صرف ان جانوروں کے لیے ہے ،جو پانی کے علاوہ خشکی میں بھی زندگی بسر کرتے ہیں، (حیات الحیوان،جلد2،ص:235-37)‘‘۔
ہمارے عہد کے تمام مفتیانِ کرام بھی اسے جائز قراردیتے ہیں۔ مفتی وقار الدین قادری رضوی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں:’’حنفیہ کے نزدیک دریائی جانوروں میں سے صرف مچھلی حلال ہے، مچھلی کے علاوہ دوسرے تمام دریائی و سمندری جانور حرام ہیں، شارک بھی ایک قسم کی مچھلی ہے۔
المنجد میں اس کی جو تصویر ہے وہ بالکل مچھلی کی ہے اور اس کی تصویر جنگ اخبار میں چھپی، وہ ویسی ہی تھی، اس کی غذا کے متعلق المنجد میں لکھا :’’ وہ چھوٹی مچھلیاں کھاتی ہے اور دوسرے دریائی جانور بھی اس سے ڈر کر بھاگ جاتے ہیں تو ہر مچھلی کی غذا ہے، بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو کھا لیتی ہیں، اس لیے یہ وجہ حرمت نہیں ہوسکتی ،(وقار الفتاویٰ ،جلد: 2،ص: 210)‘‘۔
اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔
tafheem@janggroup.com.pk