• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چند روز قبل یہ حیران کن خبر سامنے آئی کہ سنٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی اور پاور ڈویژن نے گھریلواور کمرشل استعمال کیلئے سولرپینل لگانے والوں پر فی کلو واٹ دو ہزار روپے ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی ہے۔ گھروں میں لگائے گئے سولر سسٹم کی کپیسٹی لوڈ کے مطابق عمومی طور پر 5 سے 15کلو واٹ تک ہوتی ہے۔ یعنی جس گھر میں پانچ کلو واٹ کا سولر سسٹم لگا ہوا ہے اُس سے 10ہزار اور جس گھر میں 15کلو واٹ کا سولر سسٹم لگا ہوا ہے اُس سے 30ہزار اضافی ٹیکس وصول کرنےکی تیاری کی جا رہی تھی۔ عوام آئے روز بجلی کی قیمت میں مختلف مدات میں ہونے والے اضافے اور لوڈ شیڈنگ سے تنگ آ چکے ہیں۔ انہیں اپنی ان مشکلات کا حل شمسی توانائی کی صورت میں میسر آیا تھا۔ شمسی توانائی نہ صرف سستی بلکہ ماحول دوست بھی ہے۔ جب سولر پینلز پر ٹیکس لگانے کی خبر پر شدید عوامی ردِ عمل سامنے آیا تو پاور ڈویژن کی طرف سے اس خبر کی تردید کر دی گئی لیکن ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ نیٹ میٹرنگ کے نرخوں بارے سوچنا پڑے گا۔ یعنی عوام سے شمسی توانائی کی پیداوار کے حوالے سے حکومتی سطح پر کچھ نہ کچھ چل ضرور رہا تھا لیکن عوامی ردِعمل کے بعد اس میں تبدیلی کرنا پڑی۔

اس وقت پوری دنیا قابلِ تجدید توانائی بالخصوص شمسی توانائی کی طرف منتقل ہو رہی ہےتاکہ نہ صرف مہنگے درآمدی تیل سے پیدا کی جانیوالی بجلی سے جان چھڑائی جا سکے بلکہ ماحول دوست توانائی کی پیداوار سے کاربن کے مجموعی اخراج میں کمی یقینی بنا کر روز افزوں ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ بھی کیا جا سکے۔ لیکن دوسری طرف ملکِ عزیز پاکستان ہے جہاں شمسی توانائی کی پیداوار پر ٹیکس لگانے جیسی تجاویز زیرغور آتی ہیں۔ نیٹ میٹرنگ کے نرخ کم کرنے کی تجویز تو کافی عرصے سے زیرِ غور ہے۔ حکومت پہلے ہی نیٹ میٹرنگ کے ذریعے 11- 22 روپے فی یونٹ میں بجلی خرید رہی ہے لیکن دوسری طرف سب سے نچلی سلیب یعنی 100یونٹ ماہانہ استعمال کرنے والوں سے بھی 22روپے فی یونٹ کے حساب سے بل وصول کیا جاتا ہے۔ جبکہ اس سے اوپر والی سلیبز سے 32روپے سے 65روپے فی یونٹ کے حساب سے بل وصول کیا جاتا ہے اور بل میں شامل مختلف اقسام کے ٹیکس اسکے علاوہ ہیں۔ کسی بھی شے پر بھاری ٹیکس لگانے کا مطلب یہی لیا جاتا ہے کہ حکومت اسکے استعمال میں کمی کی خواہاں ہے۔

سارا مسئلہ ناقص حکومتی منصوبہ بندی کا ہے۔ آئی پی پیز سے مراد بجلی کے وہ پلانٹس ہیں جو نجی سرمایہ کاری سے لگائے جاتے ہیں۔حکومت آئی پی پیز سے بجلی خرید کر صارفین کو بیچتی ہے۔ سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے ان نجی بجلی کمپنیوں سے کپیسٹی پیمنٹ کے حساب سے معاہدے کیے گئے ہیں کہ آپ اتنی کپیسٹی کا پلانٹ لگائیں اور حکومت آپ کو اتنی رقم دے گی پھر چاہے وہ بجلی استعمال ہونہ ہو اس کی ادائیگی ہو گی۔ ہمارے ملک میں چونکہ سردی اور گرمی میں بجلی کی کھپت میں بہت زیادہ فرق ہے، ملک میں موجود معاشی عدم استحکام کی وجہ سے صنعتی شعبہ بھی زبوں حالی کا شکار ہے جس کی وجہ سے صنعتی سرگرمیاں تعطل کا شکار رہتی ہیں اور اس شعبے میں بھی بجلی کم خرچ ہوتی ہے۔ پھر بجلی کی چوری، لائن لاسز اور بلوں کی عدم ادائیگی کی شرح بھی بہت زیادہ ہے، ان سب عوامل کی وجہ سے کپیسٹی پیمنٹ ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ حکومت اپنا یہ مسئلہ صارفین سے اضافی وصولی کی صورت میں ان کے سر تھوپ رہی ہے۔

حکومت پہلے زیادہ بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو زیادہ مہنگی بجلی فروخت کرکے نچلی ترین سلیب والے صارفین کو سبسڈی دے رہی تھی لیکن اب جبکہ پاکستان میں بجلی کے نرخ علاقائی ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہو چکے ہیں تو تمام چھوٹے بڑے صارفین سولر پر منتقل ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے حکومت کو پریشانی لاحق ہو چکی ہے۔ حکومت نے ان کپیسٹی پیمنٹس کی ادائیگی کے معاہدے بھی ڈالرز میں کیے ہوئے ہیں۔ اب یا تو حکومت ان معاہدوں کا از سر نو جائزہ لے یا پھر نیٹ میٹرنگ کے نرخ کم کرے۔

ناقص پالیسیوں کی ایک بڑی مثال پی ٹی اے کی طرف سے درآمدشدہ موبائل فونز پر عائد ٹیکس میں ہوشربا اضافہ ہے۔ اس پالیسی کا نقصان یہ ہوا ہے کہ پہلے جو لوگ پی ٹی اے سے موبائل فون کھلوانے کیلئے ٹیکس جمع کروا دیتے تھے اب وہ ٹیکس جمع کروانے کے بجائے دو دو موبائل فون استعمال کر رہے ہیں۔ ایک پی ٹی اے سے تصدیق شدہ اور ایک غیر تصدیق شدہ۔ یعنی اس پالیسی کا نقصان حکومت کو ہی ہوا ہے۔ اسی طرح اگر حکومت نیٹ میٹرنگ کا ریٹ مزید کم کرے گی تو لوگ آف گرڈ سسٹم کی طرف جانا شروع ہو جائیں گے ۔

عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 40 گیگا واٹ تک شمسی توانائی پیدا کی جا سکتی ہے لیکن حکومتی ترجیحات کی وجہ سے ان قدرتی وسائل سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا۔ اگر فوسل فیول سے چلنے والے پاور پلانٹس پر خرچ کی گئی اور کپیسٹی پیمنٹس کی مد میں ادا کی گئی رقم قابلِ تجدید توانائی کی پیداوار پر خرچ کی جاتی تو آج ہمیں اس بحرانی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ لیکن آئی پی پیز کے ساتھ طے کیے گئے غلط معاہدوں کا بوجھ عوام پر نئے نئے ٹیکس عائد کرنے یا نیٹ میٹرنگ کے نرخ کم کرنے کے بجائے ان معاہدوں کا از سرنو جائزہ لے کر اتارا جانا چاہیے۔ لائن لاسز، بجلی چوری، کرپشن، بجلی تقسیم کار کمپنیوں کے ناقص نظام کو ٹھیک کیے بغیر صرف نیٹ میٹرنگ کے نرخ کم کرنے سے آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے غلط معاہدوں کا ازالہ نہیں کیا جا سکتا۔ ایک بہت بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ آئی پی پیز کے مالکان یا توخود اقتدار کےایوانوں میں بیٹھے ہیں یا ایوان میں بیٹھنے والوں کے قریبی ہیں۔ یہ اشرافیہ کے ذاتی مفادات کا لالچ ہی ہے جس کی وجہ سے ملکِ عزیز کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین