• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ظلام بحر میں کھو کر سنبھل جا
تڑپ جا، پیچ کھا کھا کر بدل جا
نہیں ساحل تیری قسمت میں اے موج
ابل کر جس طرف چاہے نکل جا
علامہ اقبال کی مندرجہ بالا رباعی میں ہمارے نئے آج کے حالات میں پیغام ہے اس وقت طالبان کی طرف سے جنگ بندی، حکومتی کمیٹی اور طالبان کی مذاکرات کمیٹی کی ملاقاتیں اور پھر ملاقاتوں کے درمیان وارداتیں، طالبان کی تردید اور وضاحت کے اسلام آباد فیز8 ڈسٹرکٹ کورٹ کے واقع میں ان کا ہاتھ نہیں۔ چوہدری نثار کا بیان اور جج کے گارڈ اور عملے کا اس کی شہادت میں ملوث ہونا اور ان کی اسلام آباد پولیس کے ہاتھوں گرفتاری، قیمتی جانوں کا ضیاع، لندن سے ایل ایل بی کرکے آنے والی فضہ کی شہادت جس نے صرف دو روز قبل ہی وکالت کے مقدس پیشے میں قدم رکھا تھا۔ یہ تمام واقعات علامہ اقبال کی رباعی کے تناظر میں دیکھیں تو رباعی کس قدر حسب حال ہے۔ لگتا ہے کہ ہماری قیمت میں کوئی ساحل نہیں ہے اور ہماری کوئی سمت نہیں ہے۔ امریکہ جس کی جنگ ہم لڑ رہے تھے وہ ہمیں ہماری جنگ میں مبتلا کر کے خود کنارے ہوگیا ہے اور اب ہم بین الاقوامی قوتوں کی مڈل ایسٹ میں ہونے والی رسہ کشی میں ملوث ہونے کے نزدیک ہیں بلکہ کچھ باخبر لوگ تو بڑی بڑی ہانکتے رہتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ہم اس رسہ کشی کا حصہ بن چکے ہیں۔ ہمارے ملک میں عجب رواج ہے کہ بین الاقوامی سیاست اور تعلقات اور وہاں سے آنے والے مختلف مدوں میں امداد کو عوام سے چھپا کر رکھا جاتا ہے اور وہ پیسے اندر ہی اندر خرچ ہو جاتے ہیں اور جس پروجیکٹ کے لئے دیئے جاتے ہیں اس پروجیکٹ کے ڈائریکٹروں کی بڑی بڑی جیپیں خریدنے میں خرچ ہو جاتے ہیں۔ عوام بے چارے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں جن کے لئے پیسہ آتا ہے انہیں تو خبر ہی نہیں ہوتی۔ اب اسلام آباد کی کچہری میں ہونے والے بم دھماکوں اور حملے کے بعد تمام عدالتوں میں سیکورٹی کے انتظامات کو بڑھا دیا گیا ہے اوراب مزید خصوصی بجٹ سیکورٹی کے نام پر منظور ہوں گے اور اپنے منظور نظر لوگوں کو سیکورٹی گیٹوں اور کیمروں کی خریداری کیلئے آرڈر دیئے جائیں گے۔ میری یہاں گزارش ہے کہ ان خریداریوں کو ٹرانسپیرنٹ رکھا جائے اور اس پیسے سے اچھی اور بڑی کمپنیوں کی پائیدار مصنوعات خریدی جائیں۔ عوام کے پیسے کو درد کے ساتھ خرچ کیا جائے ورنہ ان خریداریوں کا کوئی فائدہ نہیں اور سیکورٹی کے نام پر ناکارہ اور غیر معیاری آلات کمیشن کے چکر میں خریدنے سے سیکورٹی نہیں ہوگی اور ہو سکتا ہے کہ کمیشن کھانے والے افسران اور سیاست دان خود ہی حملوں کی لپیٹ میں آجائیں۔ یہ تو تھے وہ خدشات جو عوام الناس کے ذہن میں سیکورٹی کے آلات کی خریداری کے سلسلے میں آتے ہیں۔
ڈاکٹر عافیہ کی سالگرہ 2مارچ کو خاموشی سے گزر گئی اس قوم نے اپنی اس ہونہار بیٹی کی رہائی کیلئے بے شمار کوششں کی ہیں مگر اب تک کوئی مثبت جواب نہیں آیا۔ میں نے تو اپنے کالم میں مشورہ دیا تھا کہ شکیل آفریدی کے بدلے میں ڈاکٹر عافیہ مانگ لیں۔ سودا برا نہیں ہے سانپ بھی مرجائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔ مگر میرا یہ فارمولہ کسی کو سنجیدہ نہیں لگا اور اقتدار کے ایوانوں سے وابستہ لوگوں نے اسے زبیدہ آپا کا ٹوٹکہ سمجھ کر نظر انداز کردیا۔ مجھے حیرت ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کے کیس میں بڑی بڑی فیس لینے والے وکلاء اتنے بے بس کیوں ہیں اور کیا وجہ ہے کہ ان کو ریلی نہیں ملتا۔ علامہ اقبال کا قطعہ ہے۔
انداز یہاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات
یاد سعت افلاک میں تکبیر مسلسل
پاخاک کے آغوش میں تسبیح و مناجات
تقسیم ہند سے پہلے علامہ اقبال کی شاعری نے مسلمانوں کے جذبہ جہاد اور روح کو بیدار کر دیا تھا جنہوں نے قائداعظم کی قیادت میں ایک نیا ملک اپنے جوش ولوے اور جذبہ ایمانی سے حاصل کیا۔ خطہ زمین میں ملنے کے بعد ہماری اگلی ضرورت تھی کہ ہم مسلمان ہوتے ہوئے ایک قوم پاکستانی بن جائیں مگر قدرت نے بہت جلد بابائے قوم قائداعظم کو ہم سے چھین لیا اور ہمارے ایک قوم بننے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ مفاد پرست سیاست دانوں نے ہمیں چھوٹے گروہوں اور ٹکڑیوں میں بانٹ دیا اور خود اپنی سیاست کو چمکایا۔ ہمیں سندھی، بلوچی، پنجابی، سرائیکی ہزارہ اور نہ جاتے کون کون سی اکائیوں میں بانٹ دیا اور خود ہم پر راج کرتے رہے۔ ہم صرف انڈیا کے ساتھ کرکٹ میچ کھیلنے والے دن پاکستانی بن جاتے ہیں اور شاہد آفریدی کے چھکوں پر ناچنے لگتے ہیں۔ جیسے ہی میچ ختم ہوتا ہے پھر دوبارہ اپنی اپنی ذات برادریوں کے گن گانے لگتے ہیں اور اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بناتے ہیں۔ حالیہ انتخابات کے نتائج نے تو اس رنگ میں مزید اضافہ کیا ہے۔ پختون خواہ میں عمران خان کی حکومت پنجاب میں میاں صاحب کی حکومت اور سندھ میں سائیں کی حکومت، بلوچستان میں ڈاکٹر عبدالمالک اگرچہ وزیراعلیٰ ہیں مگر وہاں کسی کی حکومت نہیں ہے فری فار آل ہے۔ ان حالات میں تو صرف دعا ہی کر سکتے ہیں کہ خدا ہمیں ایک قوم بنا دے جو اپنے ملک اور اس کے نظریئے کی حفاظت کرے۔ بیروزگاری اورکرپشن کا خاتمہ ہو۔ اقربا پروری اور سفارش کا کلچر ختم ہو۔ لوگوں کےکام میرٹ پر ہوں اور ایک شفاف نظام قائم ہو۔ آپ یقین کریں کہ میں مایوس نہیں ہوں مجھے ابھی بھی امید ہے کہ ہم اس تمام دلدل سے بخوبی نکل جائیں گے بقول علامہ اقبال
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا
تازہ ترین