• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی قومی زندگی میںایک بڑا مسئلہ پاکستان کی سیاست میں فوج کی مداخلت رہاہے جس کے باعث ہم کبھی سیاسی استحکام سے بہرہ مند نہ ہو پائے۔ تقسیم کے وقت ہندوستان کی نسبت پاکستان ہر لحاظ سے ایک مضبوط اور مستحکم ملک بننے کا اہل تھا کیونکہ نہ صرف اسکے پاس لامحدود قدرتی وسائل موجود تھے بلکہ ہندوستان کے مقابلے میں جغرافیائی محل وقوع، چھوٹے رقبے، مذہبی، لسانی صوبائی اور ثقافتی اختلافات کم ہونے کی وجہ پاکستان کے تیز ترین ترقی کرنے کے امکانات زیادہ تھے۔ تقسیم سے پہلے ہندوستان کو اس کے وسیع رقبے کی وجہ سے ہی برصغیر کہا جاتا تھا جو پانچ سو کے قریب ریاستوں میں تقسیم تھا اور حکمرانی کیلئے ایک مشکل ملک تصور کیا جاتا تھا، یہی وجہ ہے کہ انگریزوں سے پہلے ہندوستان کبھی ایک متحد ملک نہیں تھا۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں کو بھی یقین ہو گیا تھا کہ ہندوستان کو طاقت کے ذریعے متحد نہیں رکھا جا سکتا چنانچہ انہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے حکومت واپس لیکر تاج برطانیہ کے ماتحت کر دی جس نے ہندوستان میں پہلی مرتبہ سیاسی نظام متعارف کرایا اور ہندوستان میں انتخابات کا آغاز ہو گیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کا نظام حکومت ریاستی طاقت کی بنیاد پر ایک جابرانہ نظام تھا جسے ہم آج کی زبان میں ’’فوجی حکومت‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ تقسیم کے بعد ہندوستان نے تو اس جمہوری نظام کو مزید مستحکم بنانے کیلئے ثابت قدمی سے کئی اقدامات کئے جن میں آزادی کے صرف دو سال بعد ہی ’’ہندوستانی آئین‘‘ کی تشکیل، جو تمام مذاہب کیلئے مذہبی رواداری یعنی سیکولر ازم کے بنیادی اصولوں پر وضع کیا گیا تھا اور پھر تواتر کے ساتھ عام انتخابات کےانعقاد کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان سے کئی گنا بڑا اور بہت زیادہ مذہبی، لسانی اور ثقافتی تضادات کا حامل ہونے کے باوجود ہندوستان نہ صرف اپنے اتحاد کو قائم رکھنے میں کامیاب رہا بلکہ اس نے قابل رشک ترقی بھی کی۔ جبکہ پاکستان آزادی کے صرف 23سال بعد ہی دولخت ہو گیا، صرف یہی نہیں بقیہ پاکستان بھی ہمیشہ عدم استحکام کا شکار رہا ہے جس کی وجہ سے وہ آج خطے کا پسماندہ ترین ملک بن چکا ہے۔ اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے کہ ملک میں حقیقی سیاسی اور جمہوری عمل کو پنپنے ہی نہیں دیا گیا۔ نظریہ پاکستان کی خود ساختہ مذہبی انتہا پرستی پر مبنی تشریحات کو فروغ دیکر ریاست کی بنیادی ترجیحات سیکولر ازم اور جمہوریت کا قلع قمع کر دیا گیا۔ اور ملک کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح طاقت کے تحت چلانے کی کوشش کی گئی۔ جس کے نتیجے میں ملک دو حصوں میں تقسیم ہو گیا کیونکہ جمہوریت کے استحکام کیلئے سیکولر ازم ایک بنیادی عنصر ہے جس کے بغیر مذہبی، لسانی اور قوم پرستانہ اختلافات کو ختم نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی سیاسی استحکام حاصل کیا جا سکتا ہے جو معاشی ترقی کی بنیاد ہے۔ پاکستان سے علیحدہ ہونے کے بعد بنگلہ دیش نے تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے ریاست کو سیکولر قرار دے دیا جس کی وجہ سے وہ ہر میدان میں پاکستان سے آگے نکل گیا۔ وہاں نہ تو پاکستان کی طرح آئے دن فرقہ وارانہ فسادات ہوتے ہیں اور نہ ہی جنرل ارشاد کے بعد فوج نے براہ راست اقتدار پر قبضہ کیا ہے۔ جبکہ پاکستان آج بھی اسی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔

کوئی ملک جب ایک مرتبہ فوج کی سیاسی مداخلت کا شکار ہو جاتا ہے تو اسے وہاں سے نکلنے کیلئے بہت تگ ودو کرنا پڑتی ہے، کچھ لوگ فوج کو سیاست سے علیحدہ کرنے کیلئے فوج سے براہ راست جنگ کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ جو بذات خود ایک خوفناک عمل ہے کیونکہ فوج کے خلاف مسلح جدوجہد صرف اسی صورت میں کامیاب ہو سکتی ہے جب وہ فوج کسی بیرونی ملک کی فوج ہو۔ کیونکہ اس بیرونی فوج نے ہمیشہ اس ملک میں نہیں رہنا ہوتا اور اس میں آپ کے اپنے عزیز واقارب شامل نہیں ہوتے لیکن اپنے ملک کی افواج کے ساتھ مسلح جدوجہد اسلئے کامیاب نہیں ہو سکتی کہ نہ صرف اس نے اسی ملک میں رہنا ہوتا ہے اور اس میں آپ کے عزیز واقارب بھی شامل ہوتے ہیں بلکہ نہتے عوام فوج کے سامنے بے دست وپا ہو جاتے ہیں اور وہ اپنی ہی فوج کیخلاف یہ جنگ نہیں جیت سکتے، اس کی مثال میانمار اور پاکستان میں رونما ہونے والا سانحہ 9مئی ہے۔ فوج کو سیاست سے علیحدہ کرنے کیلئے سیاست دانوں کو سب سے پہلے اپنے اختلافات ختم کرنے ہوتے ہیں اور فوجی طالع آزمائوں کو اپنی گڈ گورننس اور صلح جو پالیسیوں سے قائل کرنا پڑتا ہے کہ وہ بتدریج سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لیں۔ سویلین حکومت کی اچھی کارکردگی ہی وہ واحد راستہ ہے جو عوام میں سویلین اقتدار اور جمہوریت کیلئے زیادہ سے زیادہ ہمدردی اور دبائو پیدا کر سکتا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اپنی احمقانہ پالیسیوں کی وجہ سے آج بھی کچھ سیاست دان بالواسطہ طور پر فوج کے خلاف جارحانہ رویہ اپنا کر فوجی مداخلت کو مضبوط بنانے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ میثاق جمہوریت کے بعد جب ملک کی دو بڑی پارٹیوں پاکستان پیپلز پارٹی اور نواز لیگ نے اپنے باہمی اختلافات ختم کرنے کی کوشش کی اور جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت کو چلتا کیا تو ان اختلافات کو وسیع تر کرنے کیلئے عمران خان نے فوج کا پسندیدہ سیاستدان اور سیاست دانوں کی مخالف راستہ اپنا لیا۔ اور اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار میں آنے کے بعد تمام سیاستدانوں کیخلاف انتقامی کارروائیاں شروع کر دیں بلکہ ان طاقتوں کے خلاف بھی ریشہ دوانیاں شروع کر دیں جو اسے اقتدار میں لے کر آئی تھیں وہ آج بھی کسی سیاستدان سے ہاتھ ملانے کیلئے تیار نہیں یہ رویہ نہ صرف پاکستانی ریاست اور سیاست کیلئے تباہ کن ہے بلکہ خود عمران خان اور اسکی پارٹی کے بھی خلاف بھی ہے۔ فوج کی سیاست سے علیحدگی تمام فریقوں کی آپس میں افہام وتفہیم سے ہی ممکن ہے۔

تازہ ترین