• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک میں اس وقت جس قسم کی سیاسی کش مکش اور بحران ہے یہ صورت حال نئی نہیں ، ماضی میں بھی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف ایسی محاذ آرائیاں کرتی رہی ہیں،مگر یہ بات زیادہ اہم ہے کہ ماضی میں پاکستان کو اس قسم کی معاشی ابتری کا سامنا نہیں رہا جس کمر توڑ مہنگائی اور بے روزگاری سے ملک اس وقت دوچار ہے ماضی میں کبھی نہیں رہا۔ ہم مسلسل آئی ایم ایف اور بیرونی قرضوں کے منتظر ہیں، جن کے ملنے پر خوشی کے بجائے ہمیں مستقبل میں اس سے نجات کی حکمت عملی بنانا ہو گی ،بیرونی دبائو میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہو رہا ہے۔ 2018کے انتخابات اور اس کے نتیجے میں بننے والی پی ٹی آئی حکومت کی ناقص حکمت عملی نے پاکستان کو معاشی طور پر تباہ کیا، سیاست میں اخلاقیات کا خاتمہ ہوا، جن دہشت گردوں کے خلاف بڑے فنڈ کے استعمال سے آپریشن کیا گیا ان ہی کے ساتھ مذاکرات کر کے انہیں نئی آکسیجن فراہم کی گئی، خارجہ محاذ پر اس حکومت نے کوئی توجہ نہ دی، بلکہ غیر ملکی سربراہان کے سامنے اپنے سابق حکمرانوں کو کرپٹ قرار دے کر پاکستانی حکومت پر ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی گئی، آئی ایم ایف اور دیگر اداروں کے ساتھ کئے گئے معاہدوں پر درست عمل در آمد نہ کیا گیا جس کے باعث ہماری مشکلات بڑھتی چلی گئیں، غیر ملکی سر مایہ کاروں کو پاکستان آنے کی جانب راغب نہ کیا گیا جس سے غیر ملکی سرمایہ کاری کو بریک لگ گئی، عمران خان حکومت نے افواج ِپاکستان، اعلیٰ عدالتوں کو بھی بدنام کرنے کی مہم چلائی جو آج بھی جاری ہے۔ملک میں اس وقت دو سیاسی دھڑے موجود ہیں، ایک عمران خان اور ان کے حامیوں کا جبکہ دوسرا ان کے مخالفین کا۔رواں سال ہونے والے عام انتخابات کے بعد جو حکومت سامنے آئی ہے وہ ملک کو بحران سے نکالنے کی کوشش کررہی ہے جس میں کچھ وقت ضرور لگے گامگر عمران خان اور ان کے ساتھی پاکستان کے خلاف سازشوں سے باز نہیں آرہے ، آنے والے دنوں میں اس بحران میں اضافہ کر کے انتشار اور بدامنی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔موجودہ صورتحال میںبیرون ملک مقیم پاکستانی بھی غیر یقینی کے باعث ملک میں پیسہ کم بھیج رہے ہیں۔ مہنگائی کی شرح میں اضافے کی وجہ سے جہاں عوام پریشان ہیں وہیں تاجروں کی جانب سے بھی نئی سرمایہ کاری سے گریز کیا جارہا ہے۔ چھوٹا کاروبار کرنے والے افراد ملکی حالات سے متاثر ہوکر کاروبار بند کررہے ہیں جس سے ملک میں بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس صورتحال سے ٹیکس کی رقم میں کمی آئے گی اور ملک کو مزید نقصان ہوگا۔ اس وقت سب سے اہم یہ ہے کہ ملک سے احتجاج کا خاتمہ ہو، سیاسی ہم آہنگی پیدا کی جائے۔یہ بات خوش آئند ہے کہ پی ٹی آئی نے منتخب ایوانوں میں رہ کر سیاسی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کےلیے شیر افضل مروت کا نام سامنے لانا خوش آئندہے،اس وقت قومی سلامتی ، معاشی چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے وطن عزیز میں سیاسی استحکام ضروری ہےاور یہ تب ممکن ہے جب حکومت اور اپوزیشن پارلیمنٹ کے اندر اور باہر افہام و تفہیم سےاپنا تعمیری اور آئینی کردار نبھائیں ، اپوزیشن ملک گیر مہم چلانے پر تلی ہوئی ہے، سیاسی کشیدگی ختم ہونے کے بجائے شدید ہو رہی ہے۔معاشی بحالی کیلئے موجودہ حکومت کے اقدامات کے مثبت نتائج رونما ہونے کا سلسلہ شروع ہوگیاہے،وزیر اعظم شہباز شریف کی اتحادی حکومت کی ساری توجہ ملکی معیشت کی سمت درست کرنے اور اقتصادی ابتری پر قابو پانے پر مرکوز ہے ،سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے سرمایہ کاری کا نیا عزم ملکی معیشت کیلئے ایک اہم پیش رفت ہے،حکومت کو آئی ایم ایف، دوست ممالک اور خود اپنے ماہرین کے مشوروں پر توجہ دینی چاہئے کیونکہ معیشت اس وقت’’ اب یا کبھی نہیں ‘‘کے مشکل مرحلےمیں داخل ہو چکی ہے۔ عوام کیلئے بھی یہ انتہائی صبرآزما مرحلہ ہے جس سے نجات حکومت کی دانشمندانہ پالیسیوں کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔ اس وقت اداروں کے درمیان اسلام آباد ججز کیس کی وجہ سے ٹکرائو کی کیفیت بھی جنم لے رہی ہے جس سے ملک میں نئی مشکلات کے جنم لینے کے امکانات ہیں،ملک کی موجودہ صورت حال میں اداروں کے درمیان کسی قسم کا ٹکرائو پاکستان کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہوگا، پی ٹی آئی نے پہلے ہی اداروں کے خلاف مہم چلاکر کو ملک کو بدنام کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے، اس وقت اداروں کو ایک پیج پر آکر ملک کو معاشی اور سیاسی بحران سے نکالنے کیلئے مثبت کردار ادا کرنا ہوگا،ماضی میں حکومت، عدلیہ اور دفاعی اداروںکے درمیان جو کچھ ہوچکا ہے اس کو بھول کر تمام افراد کو مل کر چلناہوگا۔ پچھلے پانچ سال کے دوران ملک کو جس قدر معاشی تباہی کاسامنا کرنا پڑا ہے، اب غیر ملکی قرضوں اور سرمایہ کاری سے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا سنہری موقع ہے اگر اس بار بھی ہم تصادم کا شکار ہوگئے تو ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے جس کیلئے حکومت اور اپوزیشن کو ڈائیلاگ سے ملک کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کی حکمت عملی بناناہوگی اس کے بغیر مہنگائی، بے روز گاری اور دیگر سنگین بحرانوں کا خاتمہ ممکن نہیں، حرف آخر تہذیب و شائستگی کے پیکر سید حیدر تقی کیلئے جن سے کالم نویسی کے دوران رابطہ ہوا اور ایک مضبوط تعلق میں بدل گیا۔ان کا انتقال حقیقت میں بے حسی اور بے مروتی کے اس دور میںمحبت اوراخلاق کا جنازہ اٹھنے کے مترادف ہے، وہ ایک نصابی شخصیت تھے، جس خاندان سے تعلق رکھتے تھے قیام پاکستان اور قومی زبان اردو کی ترویج میں اس کا لازوال کردار ہے، حیدر تقی ہمیشہ عظیم تھے، عظیم ہیں اور عظیم رہیں گے۔

تازہ ترین