• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہفتے کا پہلا دن تھا صبح کے آغاز سے ہی فضا میں خاصی خنکی تھی۔ ماحول پر اداسی چھائی ہوئی تھی۔ شہر اقتدار کے اکثر باسی سردی کے باعث بستر میں دبکے بیٹھے تھے کہ اچانک پاکستان کے وفاقی دارالحکومت کی پُرامن فضا گولیوں اور دھماکوں سے گونج اٹھی۔صبح نو بجے اچانک تمام نشریاتی اداروں نے خبر دینا شروع کی کہ دہشت گردوں نے اسلام آباد کی ضلع کچہری پر حملہ کردیا ہے اور تاحال فائرنگ جاری ہے۔ٹی وی اسکرین پر نمودار ہونے والی اس خبر نے جہاں شہر کے محفوظ ہونے کے دعوؤں کو خاک میں ملادیا وہیں مجھے اس واقعے سے ٹھیک دو ہفتے قبل 19فروری کو ہونے والی قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی میں پیش کی جانے والی رپورٹ یاد آگئی جس میں واضح طور پربتایا گیا کہ اسلام آبادشدت پسند تنظیموں کے نشانے پر ہے اور انہوں نے مارگلہ کی اوٹ میں واقع شہر کو گھیر رکھا ہے،یہاں پر اہم شدت پسند گروہوں نے پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں مگر آفرین ہے ہمارے وزیر داخلہ پر جنہوں نے صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر پردہ ڈالنے کے لئے اپنی ہی وزارت کی رپورٹ کے مندرجات کی اگلے ہی روز وضاحت پیش کردی اور نہ صرف اسلام آباد کو محفوظ ترین شہر قرار دے دیا بلکہ کسی بھی غیر ملکی گروہ و ایجنسی کی دخل اندازی کے امکان کو بھی رد کر دیا۔ یہ اور بات ہے کہ وزیراعظم نے کچہری سانحہ کو بھارتی حساس ادارے ’’را‘‘ کی کارستانی قرار دیا ہے۔یوں وفاقی وزیر داخلہ کی بات کا بھرم 10دن بھی قائم نہ رہ سکا اور شدت پسندوں نے اسلام آباد کے محفوظ ترین سیکٹر F8کی کچہری پر دھاوا بول دیا۔ کچہری واقعے کے نصف گھنٹے بعد دارالحکومت کی پولیس کے ایک سینئر افسر نے فون پر بتایا کہ ہمارے دوست ایڈیشنل سیشن جج رفاقت اعوان اب ہم میں نہیں رہے اور یہ کہہ کر وہ زار و قطار رو پڑے۔
رفاقت اعوان بارعب شخصیت کے مالک تھے۔ نہایت ایمانداری سے مقدمات کی سماعت کرنا اس مرد طرح دار کا شیوہ تھا۔ رفاقت اعوان جیسے جج کاہم سے چھن جانا بہت سے سوالات کو بھی جنم دیتا ہے۔ آئی جی اسلام آباد کے بقول دو حملہ آوروں نے فائرنگ کے بعد خود کو دھماکے سے اڑا لیا اس سانحے کے وقت کچہری میں 47سے زائد پولیس اہلکار تعینات تھے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا پولیس فورس اس حد تک کمزور ہوچکی ہے کہ دو کلاشنکوف بردار افراد نے کئی افراد کو موت کے گھاٹ اتارا اور پولیس کے ایک کانسٹیبل کے علاوہ کسی کی بندوق نے ایک گولی تک نہ اگلی۔اسلام آباد ریڈ زون کی حفاظت کے لئے 310کے لگ بھگ نفری ڈیوٹی پر مامور ہوتی ہے تو کیا ایک درجن شدت پسند انہیں بھی چت کرسکتے ہیں۔مقصد اپنی فورسز کو ہدف تنقید بنانا نہیں ہے مگر کیا کروں کہ گزشتہ کئی کالموں میں لکھ چکا ہوں کہ نت نئے تجربات بند کریں اور ہمیں اپنی فورسز کی استعداد کار بڑھانے کی اشد ضرورت ہے مگر یہاں تو عالم یہ ہے کہ پولیس فورس کے سینئر افسران کے آپس میں تعلقات شدید نوعیت کو پہنچ چکے ہیں۔ زبان زد عام ہے کہ آئی جی اسلام آباد کے دارالحکومت کے پولیس چیف سے بات چیت کی سطح کے بھی مراسم نہیں ہیں۔ گزشتہ کئی ماہ قبل سکندر واقعے میں پوری اسلام آباد پولیس کی جگ ہنسائی کی وجہ بننے والے ایس ایس پی صاحب اس مرتبہ بھی خواب و خرگوش کے مزے لوٹتے رہے اور حملہ آور بے گناہوں کو لقمہ اجل بناتے رہے۔ واقعے کے تین گھنٹے بعد کچہری پہنچے والے ایس ایس پی کی غفلت کی کوریج قومی نشریاتی و اشاعتی اداروں نے بھرپور انداز میں دکھائی۔ کئی مرتبہ لکھا ہے کہ افسران کا میرٹ پر تقرر نہایت ضروری ہے مگر اس کے باوجود زبان زد عام ہے کہ مذکورہ پولیس افسر کی تعیناتی صوبائی حکومت کی اہم ترین شخصیت کے دباؤ پر کی گئی ہے۔ اگر تعیناتیاں اس انداز میں کی جائیں گی تو اس کے نتائج واقعہ اسلام آباد سے مختلف نہیں ہوں گے۔
جس شہر کے بارے میں وزیر داخلہ نے صرف دس روز قبل کہا تھا کہ اسلام آباد میں کوئی غیر ملکی ایجنسی کسی کارروائی کے لئے کام نہیں کر رہی۔ کچہری واقعے کے اگلے روز وزیراعظم میاں نوازشریف نے ارکان پارلیمنٹ سے گفتگو میں انکشاف کیا کہ اسلام آباد واقعے میں ’’را‘‘ کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں۔ اگر واقعی اس غیر ملکی ایجنسی کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد وزیراعظم کو پیش کئے گئے ہیں تو اس پر انہیں خاموش نہیں رہنا چاہئے۔تمام فورمز پر اور اقوام عالم کے سامنے وہ ثبوت لانے چاہئیں تھے جن میں غیر ملکی ایجنسی کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں۔ معاملے پر اسی طرح احتجاج کیا جانا چاہئے، جیسے ممبئی حملوں کے بعد بھارت نے پوری دنیا میں ڈھنڈورا پیٹ کر پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کی تھی۔ بھارت سے دوستانہ تعلق کا ہر ذی شعور پاکستانی خواہاں ہے مگر پاکستان میں دہشت گردوں کی کارروائیوں میں بھارتی مداخلت بھی ہرگز برداشت نہیں کی جاسکتی۔
حالیہ دہشت گردی کی لہر پر قابو پانے کے لئے وزیراعظم کے اقدامات قابل ستائش ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ میاں نواز شریف دن رات دہشت گردی کے جن کو دوبارہ بوتل میں بند کرنے کی تگ و دو میں ہیں مگر اب تک جتنی بھی کوششیں کی گئی ہیں وہ ان نازک حالات کے حساب سے ناکافی ہیں۔ان کے لئے ایک کھلی تجویز یہ ہے کہ وہ کسی بھی تین یا چار رکنی کمیٹی پر اکتفا نہ کریں بلکہ مقتدر اداروں کو شامل کرنے کے ساتھ ساتھ قومی اداروں پر واضح کردیں کہ قوم اب مزید لاشیں اٹھانے کی متحمل نہیں۔ حکومت کے پاس اس وقت بھی ایک ایسا شخص موجود ہے کہ اگر وہ چاہے تو مولوی فضل اللہ اسلام آباد آکر بھی حکومت سے مذاکرات کرنے کے لئے راضی ہو جائے گا۔ جی ہاں پاکستان کے حساس اداروں کی قید میں زیر حراست محمود خان پٹھان وہ شخص ہے جو فضل اللہ کو کسی بھی بات کے لئے مجبور کرسکتا ہے اور فضل اللہ کبھی بھی محمود خان کی بات نہیں ٹال سکتا۔ ملک کے حساس اداروں کو بھی اس بات کا بخوبی علم ہے کہ ان کی قید میں موجود چند افراد کی کیا افادیت ہے اور طالبان قیادت پر مفتی آفتاب ،محمود خان پٹھان اور مسلم خان کس حد تک اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ وہ شاید وزیراعظم کو یہ سب بتانے سے گریزاں ہیں۔ انتہائی ذمہ داری سے میں یہ بات کہہ رہا ہوں کہ تحریک طالبان پاکستان کے امیر کے ایک قریبی کمانڈر نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ مولوی فضل اللہ مذاکرات میں انتہائی سنجیدہ اور اس عمل کو کامیاب کرنا چاہتے ہیں۔ اب حکومت کو بھی اس عذاب سے قوم کو نکالنے کے لئے دلیرانہ فیصلے کرتے ہوئے تاخیر نہیں برتنی چاہئے لیکن کیا آپریشن کی حامی قوتیں وزیراعظم کو سرخرو ہونے دیں گی؟؟ آج جب ہر پاکستان اس سوال کا متلاشی ہے کہ دہشت گردی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا مگر مجھے وہی رفاقت اعوان یاد آ رہے ہیں جو حق پر چلنے کی پاداش میں دہشت گردوں کا نشانہ بنے۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے...آمین۔اپنی شہادت سے قبل اکثر یہ شعر پڑھا کرتے تھے
عمر اتنی تو عطا کر میرے فن کو خالق
کہ میرادشمن میرے مرنے کی خبر کو ترسے
تازہ ترین