بجلی کے بلوں پر فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کیس کی آزاد جموں کشمیر ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔
چیف جسٹس آزاد کشمیر ہائی کورٹ جسٹس صداقت حسین راجہ کی سربراہی میں قائم بینچ نے حکومت پر برہمی کا اظہار کیا۔
چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے فیصلوں پر عمل نہ ہو گا تو وزیرِ اعظم کو بلانا پڑے گا، فیول ایڈجسٹمنٹ کا قانون اسمبلی سے پاس نہیں ہوا تو نافذ کیسے کر دیا گیا، آزاد کشمیر میں کس قانون کے تحت فیول ایڈجسٹمنٹ بلوں میں شامل کی جاتی ہے، بجلی کا بل ایک خرچ ہے اس پر انکم ٹیکس لگنے کی کیا تُک ہے، ایڈووکیٹ جنرل کل آکر بتائیں کہ ایکسٹرا ٹیکس کیا ہے، ریٹائرڈ ججز کو بجلی مفت کیوں دی جاتی ہے، ریٹائرڈ ججز کے گھر سنتری اور اسٹینو کا کیا کام؟ اگر یہ قانون ہے تو اسے ختم کروائیں، اگر ججز کے پاس فالتو گاڑیاں ہیں تو ختم کریں، قانون ہے تو ترمیم کریں۔
آئی جی نے جتنے بیریئر لگوائے ہیں سب کو ختم کریں، اگر آئی جی کو ڈر لگتا ہے تو استعفیٰ دے دیں، جتنے لوگ پروٹوکول کے شوقین ہیں، وہ اپنا شوق اپنے خرچ پر پورا کریں، آئندہ کسی کے آگے پیچھے پولیس کی گاڑیاں اور ہوٹر چلتے دکھائی نہیں دینے چاہئیں، بجلی کے معاملہ میں لوگوں کو ریلیف دیں، ٹیرف کا تعین کرنا حکومت آزاد کشمیر کا کام ہے، اسمبلی کے ذریعے اس پر قانون بنائیں۔
چیف جسٹس ہائی کورٹ نے ایڈووکیٹ جنرل کو تمام باتیں وزیرِ اعظم تک پہنچانے کا اور فریقین کو کل عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔