• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج میں آپ کو پرانے دور کی کہانی سنانے جا رہا ہوں، ویسے میرا ارادہ کہیں جانے کا نہیں ہے، میں خیر سے یہیں رہوں گا اور آپ کو ایک پرانی کہانی سنائوں گا۔ کہنے کی خاطر میں نے کہہ دیا ہے کہ میں آپ کو کہانی سنانے جا رہا ہوں، آپ کو کہانی سنانے کیلئے مجھے کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک دو چھوٹی موٹی وضاحتیں کردوں یہ کہانی اگلے وقتوں کی کہانی ہے،پرانی کہانی ہے مگر اتنی پرانی نہیں کہ کہانی پر آپ کو موہنجودڑو کے دور کی کہانی کا گمان ہونے لگے۔ یہ کہانی ہندوستان کے بٹوارے اور پاکستان بننے کے بعد کی کہانی ہے بھولے بسرے دور کی کہانی نہیں ہے۔ موٹر گاڑیاں، جہاز، ریل گاڑیاں اور انٹرنیٹ اور موبائل فون دیکھ کر مت سوچئے گا کہ یہ دور ترقی یافتہ دور ہے اور ہم بوڑھوں نے ناخواندہ،ناخبری، بے خبری اور لاعلمی کے دور میں زندگی کے ایام گزارے ہیں۔ ہمارے دور میں گراہم بیل نامی ایک شخص ٹیلیفون ایجاد کرنے میں لگا ہوا تھا، آپ کے ہاتھ میں جو موبائل فون ہے گراہم بیل جیسے لوگوں کی وجہ سے ہے۔ ورنہ آپ آج بھی کان پر ہاتھ رکھ کر چلا رہے ہوتے۔’’ اللہ رکھے تسی کھتے او بھراوو؟‘‘پرانے دور کے ہم لوگ بغیر کسی تذبذب، بغیر کسی جھجک کے ٹیکس دیتے تھے اور ٹیکس لیتے تھے۔ ٹیکس دینے اور ٹیکس لینے میں ایک دوسرے کو چکر نہیں دیتے تھے۔ ہم جانتے تھے کہ ملک قرضوں اور امدادوں سے نہیں چلتا۔ ملک چلتا ہے آپ کے اور میرے ٹیکسوں سے۔ اس بات کا علم ان لوگوں کوخود بھی ہو گیا تھا جن لوگوں کو ہم اپنا ووٹ دیکر اسمبلی کے ایوانوں میں بٹھاتے تھے۔ وہ لوگ بولتے تھے مطلب کی بات کرتے تھے اور مطلب کی بات سنتے تھے۔ جن لوگوں کو اپنے ووٹ کے بل بوتے سے ہم اسمبلیوں کا ممبر بناتےتھے ان لوگوں کے چاچوں، ماموں، نند، بھاوجوں، بیٹی، بیٹوں اور نواسوں کو ووٹ دیکر کبھی بھی اسمبلی کے ایوانوں کی شکل دیکھنے نہیں دیتے تھے ۔ہم نے اپنے دور میں کبھی بھی کنبوں کو اسمبلی ممبر ہوتے نہیں دیکھے۔ کنبے کھانے کی میز پر کھانا کھاتے ہوئے ملک کی تقدیر میں ردوبدل نہیں کرتے تھے ۔یہ سب آپ کے جدید دور میں ہوتاہے،ہمارے پس ماندہ دورمیں نہیں ہوتا تھا ۔ہم پس ماندہ ہوتے تھے مگر احمق نہیں ہوتے تھے ۔فقیروں کا آسان سا فلسفہ ہے جو کچھ آج آپ اپنے ترقی یافتہ دور میں دیکھ رہےہیں، جس کا حظ آج آپ اٹھا رہے ہیں۔ اس کی ابتدا ہمارے پرانے دور میں ہوئی تھی آج آپ جو چونسہ،انور رٹول اور سندھڑی آموں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں،ان آموں کا بیج ہمارے پس ماندہ دور میں بویا گیا تھا۔ ایک اہم بات کی طرف اشارہ کررہا ہوں بلکہ اس ایک اہم بات کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ اس کارنامہ سے ہمارے ماضی کے پس ماندہ دور کا دور دور کا واسطہ نہیں ہے۔ہم کسی ادارے یا دوست ممالک سے قرضہ نہیں لیتے تھے قرضے لینے کے بعد بغلیں نہیں بجاتے تھے ،بھنگڑا نہیں ڈالتے تھے۔ قرض مل جانے کے بعد خود کو سربلند محسوس نہیں کرتے تھے ۔آپ جب دوست سے قرض لیتےہیں تب آپ دوست کے دوست نہیں رہتے ۔آپ اپنے دوست کے مقروض ہوجاتے ہیں ہم مجہول یہ کام نہیں کرتے تھے ۔سچ بات یہ ہے کہ ہم خود کفیل ہوتے تھے ہم پرانے دور کے لوگ پھنے خان نہیں ہوتے تھے ۔سندھ اور پنجاب جو کہ اب پاکستان کا اٹوٹ انگ ہیں اتنی گندم اور چاول پیدا کرتے تھے کہ ہم معاشی طور پر بدحال ممالک کو امداد میں چاول اور گندم دیتے تھے۔ ہم ماضی کےان پڑھ لوگ تصور تک نہیں کر سکتے تھے کہ ہم خود ایک روز دانے دانے کے محتاج ہو جائیں گے اور امداد میں دنیا سے گندم اور چاول کی بھیک مانگتے پھریں گے ایسا ہوتا تھا ہمارا پس ماندہ دور ۔میں اپنے پس ماندہ دور کا موازنہ آپ کے ترقی یافتہ دور سے کرنے کی جسارت نہیں کر سکتا اور نہ ہی میں نے اپنے پس ماندہ دور کا دفاع کیا ہے میں کہانی شروع کرنے سے پہلے صرف اتنی عرض کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ تب ہم نئے نئے عالم وجود میں آئے تھے وسائل محدود تھے ہمارے پاس ایٹم بم نہیں ہوتا تھا پھر بھی ہم خوش تھے ۔خود کفیل تھے کچھ بھی امکان سے باہر دکھائی نہیں دیتا تھا بہت کچھ نہ ہونے کے باوجود ہمارے پاس وافر مقدار میں بہت کچھ تھا ۔ایسے ہی ایک حیرت انگیز دور میں اس کہانی نے جنم لیا تھا ایسی کہانیاں ایسے دور میں جنم لیتی ہیں جب ہم امکان کی سرحدیں عبور کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ اب مسئلہ کچھ یوں ہے کہ کہانی کچھ طویل ہے اور آپ کو کہانی سنانے کیلئے جگہ میرے پاس محدود ہے۔سردست میں آپ کو کہانی کی ابتدا سنا دیتا ہوں۔مکمل کہانی پھر کبھی میں آپ کو سنائوں گا۔

بے وقت ڈاکٹر مرشد کا ٹیلیفون آیا میں نے بات کی، خیریت ڈاکٹر؟ڈاکٹر مرشد میرا معالج ہے اور میرا دوست بھی ہے ڈاکٹر نے پوچھا’’تم اکیلے ہو،یا تمہارا کوئی جڑواں بھائی بھی ہے‘‘؟

مخولیابننے کی کوشش کرتے ہوئے میں نے کہا۔’’میں اپنے مرحوم والدین کی پہلی اور آخری نشانی ہوں اس دنیا کو اکیلے بھگتنے کیلئے پیدا ہوا ہوں۔

ڈاکٹر مرشد نے کہا ۔تم آسکتے ہو؟گھڑی دیکھتے ہوئے میں نے پوچھا ۔اس وقت؟ہاں ۔ابھی اور اسی وقت۔ ڈاکٹر مرشد نے کہا۔ ’’کچھ لوگ کوما میں پڑے ہوئے ایک شخص کو اسپتال میں چھوڑ کر گئے ہیں کوما میں پڑا ہوا شخص ہو بہو تمہارے جیسا ہے‘‘ ۔

تازہ ترین