سمعتا افضال سید
یہ نومبر 2022ء کی ایک اداس دوپہر تھی۔ شکار پور کے پناھ گزین کیمپ کے باہر بیٹھی سلیمہ حسرت سے دور اس علاقے کی طرف تک رہی تھی جہاں کبھی اس کا مکان ہوا کرتا تھا۔ مگر وہاں اب تاحد نگاہ سیلاب کے پانی کا ڈیرا تھا۔ خوفناک سیلاب ان کا مال و اسباب ہی نہیں امیدیں اور خواب بھی بہا کر لے گیا تھا۔ اب وہ دو ماہ سے اپنے شوہر اور تین بچوں کے ساتھ اس پناہ گزین کیمپ میں مقیم تھی۔
سندھ حکومت اور دوسرے فلاحی اداروں کی جانب سے انھیں کھانا پینا اور ضرورت زندگی کا دیگر سامان تو مل رہا تھا مگر مستقبل کا سوچ سوچ کر اس کا دل دہل جاتا تھا۔ جیسا بھی تھا کچا پکا، اپنا گھر تو تھا، تھوڑی بہت کھیتی باڑی اور مال مویشی پالنے سے گزرا ہو ہی جاتا تھا۔ مگر اب کیا ہوگا؟ کیا انھیں زندگی بھر پناہ گزین کیمپ میں یا دربدر کی ٹھوکریں کھا کر زندگی گزارنی ہوگی۔ شوہر کے روزگار، بچوں کی تعلیم کا کیا ہوگا؟ یہ سوال اس کے ذہن میں کچوکے لگاتے رہتے تھے۔ مگر یہ کہانی صرف سلیمہ کی نہیں تھی۔ یہ سوالات تو ان ایک کروڑ سے زیادہ لوگوں کے ذہنوں میں بھی تھے جو سندھ کے چوبیس اضلاع میں سیلاب سے بے گھر ہوئے تھے۔
بے مکانی، بے سروسامانی کے اس عالم میں انھیں اگر کوئی امید تھی تو وہ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری سے تھی جنھوں نے اپنے نانا شہید ذوالفقار علی بھٹو اور والدہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے روٹی، کپڑا اور مکان کے مشن کو آگے بڑھانے کا عہد کر رکھا تھا۔ بلاول بھٹو زرداری نے انھیں مایوس نہیں کیا۔ وہ اس وقت وزیر خارجہ تھے مگر انھوں نے اپنی تمام مصروفیات ترک کرکے سیلاب متاثرہ علاقوں اور امدادی کیمپوں کا دورہ کیا۔
قدرتی آفت سے ہونے والی تباہی کا خود مشاہدہ کیا اور متاثرین کے دکھوں کی کہانیاں خود سنیں اور اس کے بعد ایک ایسے منصوبے کا اعلان کیا جس کی مثال پاکستان تو کیا دنیا کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ انھوں نے سندھ حکومت کو ہدایت کی کہ سیلاب سے جتنے بھی لوگ بھی بے گھر ہوئے ہیں انھیں سندھ حکومت گھر بنا کر دے۔ اور یہ گھر کچے نہ ہوں بلکہ اتنے پائیدار ہوں کہ بارش، سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کا مقابلہ کرسکیں۔
صوبائی حکومت نے اس مقصد کے لیے سندھ پیپلز ہاؤسنگ فار فلڈ افیکٹیز (SPHF) پروجیکٹ کا آغاز کیا۔ اس پروجیکٹ کے تحت سندھ کے چوبیس اضلاع میں دو سال کے اندر 20 لاکھ گھر تعمیر کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا۔ یہ ایک بہت بڑا ٹاسک اور بہت بڑا چیلنج تھا کیونکہ دنیا میں کہیں بھی اتنے بڑے پیمانے پر ہاؤسنگ پروجیکٹ نہیں بنایا گیا۔ آزاد کشمیر اور بالا کوٹ میں 2005ء کے زلزلے کے بعد ساڑھے چھ لاکھ گھر تعمیر کیے گئے۔
مگر ان کی تکمیل میں ایک دہائی سے زیادہ کا وقت لگ گیا اور پروجیکٹ میں بے قاعدگیوں کی شکایات بھی سامنے آئیں۔ 2015ء میں نیپال میں تباہ کن زلزلے کے بعد 7 لاکھ 80ہزار گھر تعمیر کیے گئے تھے۔ ایس پی ایچ ایف کی انفرادیت دنیا کا سب سے بڑا ہاؤسنگ پروجیکٹ ہونا ہی نہیں بلکہ اس منصوبے کی شفافیت کے لیے ایسے اقدامات کیے گئے ہیں جس نے عالمی اداروں کا سندھ حکومت پر اعتماد بڑھایا ہے۔
ابتدائی طور پر پروجیکٹ کے لیے سندھ حکومت نے 50 ارب روپے اور ورلڈ بینک نے 110 ارب روپے کے فنڈ دیے۔ پہلے مرحلے میں پاک فوج اور ضلعی انتظامیہ نے امدادی کارروائیوں کے دوران متاثرین کا ڈیٹا اکٹھا کیا۔ پھر سندھ حکومت نے عالمی شہرت یافتہ پانچ این جی اوز کو ہائر کرکے اس ڈیٹا کی توثیق کرائی اور اس کے بعد این جی اوز اور سرکاری ڈیٹا کے تقابل کے لیے ایک انٹرنیشنل فرم ارنسٹ اینڈ ینگ کو ہائر کیا گیا جو تمام ڈیٹا کی تصدیق کے بعد فنڈ جاری کرنے کی منظوری دیتی ہے۔ ایک اور اہم خوبی اس پروجیکٹ کی یہ ہے کہ اس میں کوئی سرکاری ادارہ یا کوئی مڈل مین شامل نہیں ہے۔ ڈیٹا کی توثیق کے بعد متاثرین کا بینک اکاؤنٹ کھولا جاتا ہے اور گھر بنانے کے لیے پہلی قسط براہ راست اس کے اکاؤنٹ میں منتقل کردی جاتی ہے۔
پہلی قسط ملنے کے بعد بینفشری اپنے گھر کی تعمیر فراہم کردہ گائیڈلائن کے مطابق خود کراتا ہے تاکہ مکان کی پائیداری اور کوالٹی کو یقینی بنایا جاسکے۔ پہلا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد این جی او کی ٹیم آکر معائنہ کرتی ہے اس کے مکان کی تصویریں بنا کر ایپ پر اپ لوڈ کرتی ہے۔ کوالٹی کے اطمینان کے بعد اگلی قسط بھی براہ راست بینفشری کے اکاؤنٹ میں منتقل کی جاتی ہے۔ اسی طرح دوسرا مرحلہ مکمل ہونے کے دوران اور بعد بھی معائنہ کیا جاتا ہے، اس کے شواہد اکٹھے کیے جاتے ہیں اور پھر تیسری قسط کے اجرا کے بعد مکان مکمل ہوجاتا ہے۔ اس طرح اس پروجیکٹ میں نہ کوئی ٹھیکیدار ہے نہ مڈل مین۔ نہ کوئی اور جھمیلے۔
یہی وجہ ہے کہ اس پروجیکٹ نے نہ صرف مقامی لوگوں کو بااختیار بنایا ہے بلکہ اربوں روپے کا سرمایہ دیہی علاقوں میں لگنے سے وہاں روزگار کے بے تحاشا مواقع بھی پیدا ہوئے ہیں۔ اینٹوں کی تیاری، چنائی کے مزدور، پلستر اور رنگ کے کاریگر، دروازے کھڑکیاں بنانے والے بڑھئی، لوہار، تعمیراتی ساز و سامان فروخت کرنے والے۔ غرض لاکھوں لوگوں کی زندگی کا پہیا چل پڑا ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے ایک سروے کے مطابق اس پروجیکٹ سے دو سال میں روزگار کے دس لاکھ مواقع پیدا ہوں گے۔
سندھ پیپلز ہاؤسنگ پروجیکٹ کا ایک اور طرہ امتیاز خواتین کو بااختیار بنانا ہے۔ اس پروجیکٹ سے فائدہ اٹھانے والے بیس لاکھ افراد میں سے 8 لاکھ خواتین ہیں جبکہ 20لاکھ گھروں میں سے تقریباً 12 لاکھ گھروں کی ملکیت خواتین کے نام ہوگی۔ وہ دیہی خواتین جو پہلے گھر سے باہر نکلتے ہوئے گھبراتی تھیں۔ سودے سلف کا حساب بمشکل کرپاتی تھیں اب وہ مکمل اعتماد سے بینک جاتی ہیں۔ اپنے اکاؤنٹ سے پیسے نکلوا کر اپنے ہاتھوں سے خرچ کرتی ہیں اور ہزاروں لاکھوں کا حساب خود کرتی ہیں۔
اس معاشی خود مختاری نے انھیں اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی کے فیصلے خود کرنے کے لیے بااختیار بنایا ہے۔ این جی اوز کی ٹیمیں ان خواتین کو کم عمری اور کزن میرج کے نقصانات سے بھی آگہی فراہم کر رہی ہیں۔ خواتین اور نوجوانوں کو مختلف ہنر بھی سکھائے جا رہے ہیں۔ مجموعی طور پر ان کوششوں سے شعور اور روشن خیالی کے ایسے چراغ جلنے لگے ہیں جو صدیوں سے چھائی تاریکی کو مٹا کر ان خواتین کی زندگیوں میں اجالے بکھیرنے لگے ہیں۔
پروجیکٹ کا ایک اور خوش آئند پہلو یہ بھی ہے کہ ان بیس لاکھ گھروں کی تعمیر میں ماحولیاتی تبدیلی کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے۔ مکانوں کی تعمیر کے لیے ماحول دوست ’گڈ برک‘ استعمال کی جارہی ہیں جو بھٹوں میں پکائے بغیر تیار کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے سولر کے ذریعےمستحق گھرانوں کو مفت بجلی کی فراہمی کا جو وعدہ کیا تھا، اس پروگرام میں بھی ان گھروں کو شامل کیا جارہا ہے تاکہ گرین انرجی کے ذریعے ان کی توانائی کی ضروریات پوری کی جاسکیں۔
سیلاب سے متاثر ہونے والے 50 ہزار دیہات کے نوے فیصد کچے گھروں میں بیت الخلا کی سہولت بھی میسر نہیں تھی مگر اب سینی ٹیشن اور پینے کے صاف پانی کی سہولتیں بھی انھیں مہیا کی جارہی ہیں۔ پکے مکانات، صحت و صفائی کی سہولیات کی وجہ سے ان علاقوں میں مختلف بیماریوں کو پھیلاؤ بھی کم ہوا ہے۔
پروجیکٹ کی شفافیت کو دیکھتے ہوئے، اسلامک ڈیولپمنٹ بینک، ایشین ڈیولپمنٹ بینک بھی اس پروجیکٹ کے مختلف ذیلی منصوبوں میں سندھ حکومت کے شریک بن چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انفرادی طور پر مخیر حضرات بھی گھروں کی تعمیر کے لیے چندہ دے رہے ہیں، کوئی دس گھر بنوا رہا ہے تو کوئی بیس۔ اور کوئی کسی بیوہ، کسی معذور فرد کی کفالت کا ذمہ اٹھا رہا ہے۔ یعنی چراغ سے چراغ جلتا جارہا ہے۔
اس وقت تک پروجیکٹ کی صورت حال یہ ہے کہ پانچ لاکھ افراد کو پہلی قسط اور ڈھائی لاکھ افراد کو دوسری قسط جاری کی جاچکی ہے جبکہ ایک لاکھ کے قریب گھر تکمیل کے مرحلے میں ہیں جن میں سے ہزاروں گھر مکمل ہوچکے ہیں اور متاثرین وہاں آباد ہو کر ایک نئی زندگی کی شروعات کرچکے ہیں۔ ایس پی ایچ ایف نے ہر مہینے 50ہزار گھروں کی تکمیل کا ہدف مقرر کیا ہے۔ امید ہے جلد ہی 8لاکھ گھروں کا سنگ میل عبور کرلیا جائے گا اور یہ دنیا کا سب سے بڑا ہاؤسنگ پروجیکٹ بن جائے گا۔ الغرض ایک انقلاب ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے سندھ کے چوبیس اضلاع میں برپا ہورہا ہے۔
شکار پور کی سلیمہ اب اپنے پکے مکان میں رہتی ہے۔ اس کا شوہر ارد گرد کے دیہات میں مکانوں کی تعمیر میں محنت مزدوری کرکے روزگار حاصل کر رہا ہے۔ سلیمہ کے بچے اسکول بھی جانے لگے ہیں۔ کچھ مہینوں پہلے جن آنکھوں میں آنسو، حسرتیں اور ویرانیاں تھیں ان آنکھوں میں اب امید اور خواب کے ستارے جھلملاتے ہیں۔ وہ اب دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتی ہے تو صرف اپنے اور اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے دعا نہیں مانگتی بلکہ ان کے لیے بھی خیر کی طلب گار ہوتی ہے جنھوں نے روشن مستقبل کی طرف ان کا سفر آسان کردیا ہے۔