حالیہ دنوں میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کاملک میں جاری الیکشن کے تناظر میں ایک متنازع بیان میڈیا کی زینت بنا ہے کہ جس دن میں ہندو مسلم (سیاست) کے بارے میں بات کرنا شروع کروں گا، اُس دن میں عوام کی رہنمائی کرنے سے محروم ہوجاؤں گا۔ مودی کا یہ بیان راجستھان میں انتخابی مہم کے دوران ایک تقریر کے چند دن بعد آیا ہے جس میں انہوں نے سیاسی حریف کانگریس کے منشور پر تنقید کرتے ہوئے مسلم اقلیتوں کے خلاف کچھ تضحیک آمیز کلمات استعمال کیے تھے۔کانگریس کی جانب سے مذکورہ قابلِ اعتراض حرکت کی شکایت درج کروانے کے بعد الیکشن کمیشن آف انڈیا نے انتخابی ضابطہ اخلاق کی مبینہ خلاف ورزی پربھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی اعلیٰ قیادت سے جواب طلب کرلیا ہے۔سرحدپار میڈیا رپورٹس کے مطابق نریندر مودی تیسری باردنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت کے وزیر اعظم بننے کیلئے موسٹ فیورٹ ہیں، تاہم میں نے گزشتہ ہفتے اپنے کالم میں ویدک نجومیوں کی پیش گوئیاں بیان کی تھیں کہ بھارت میں جاری انتخابات کے نتائج سب کیلئے حیران کن ثابت ہونگے،ہندوستان کی تاریخ کےان سب سے زیادہ متنازع انتخابات کے غیر معمولی پیچیدہ اثرات مرتب ہونگےاور مودی کا لوک سبھا میں چارسو نشستیںحاصل کرنے کا خواب چکنا چور ہو جائے گا۔تقسیمِ ہند کے بعد سے ہمارے پڑوسی ملک میں حکومت سازی کیلئے اقلیتی ووٹ بینک کو کلیدی نوعیت کا سمجھا جاتا ہے اورہر مرتبہ مختلف سیاسی جماعتوں کی کامیابی کا دارومدار مسلم ووٹروں پرہوتا ہے۔میری معلومات کے مطابق لوک سبھا کی 543 نشستوں میں سے 65 ایسی ہیں جہاں اقلیتی مسلمانوں کی آبادی 30 سے 80 فیصد تک ہے، یہ حلقے اتر پردیش، آسام، بہار، کیرالہ، جموں و کشمیر، مغربی بنگال اور تلنگانہ میں ہیں، علاوہ ازیں35-40 انتخابی حلقوں میں مسلمانوں کی بڑی تعداد بستی ہے،بھارتی منظرنامہ پر نمایاں سیاستدانوں لالو پرساد یادو اور ملائم سنگھ کی کامیابی کی اہم وجہ مسلم اقلیتوں کی طرف سے حمایت ہے۔روایتی طور پر بڑی سیاسی جماعتیں اقلیتی ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے مختلف حکمت عملی اور حربے اپناتی ہیں، انڈین نیشنل کانگریس کو ایک سیکولر پارٹی سمجھا جاتا ہے جو ہمیشہ اقلیتی بہبود، بین المذاہب ہم آہنگی اور سماجی انصاف کو اپنے انتخابی منشور کا حصہ بناتی ہے، کئی علاقائی پارٹیاں بشمول آل انڈیا ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) اور جنتا دل (یونائیٹڈ) بھی مختلف اقدامات کے ذریعے اقلیتی ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں، تاہم دوسری طرف حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو اقلیتی کمیونٹی بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ تعصب اور امتیازی سلوک کی وجہ سے شدیدتنقید کا سامنا رہاہے۔مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے بھارتی میڈیا متواتر رپورٹ کر رہا ہے کہ مسلمانوں کا روایتی ووٹ بینک اب کسی کام کا نہیں رہا اور مذہبی اقلیتیں انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہونے کی پوزیشن سے محروم ہوگئی ہیں۔ حزب اختلاف کی جماعتیں، جو کانگریس کی قیادت میں انڈین نیشنل ڈیولپمنٹ انکلوسیو الائنس (انڈیا) کے تحت مودی کے خلاف انتخابی دنگل میں اُتری ہیں، بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہندو اکثریتی ووٹروں کو متاثر کرنے کیلئے اقلیتی مسلمانوں کو نشانہ بنانے پر کڑی تنقید کررہی ہیں۔ بی جے پی کے حامیوں کے مطابق مودی اپنے طویل دور حکومت میں سخت گیر ہندوتواپالیسیوں کے ذریعے بھارت کو آگے بڑھانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔میں نے اس حوالے سے مختلف مواقع پراپنا نقطہ نظر پیش کیا ہے کہ ہندوستان میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے فروغ دیے جانے والے ہندوتوا نظریہ کا ہندو دھرم سے کوئی تعلق نہیں ہے، اسکا ذکر وید، رامائن، مہابھارت، اور بھگود گیتا سمیت کسی بھی قدیم مقدس کتاب میں نہیں ہے، اور نہ ہی اس کی پیروی کرنا کسی ہندو پر لازمی مذہبی ذمہ داری ہے۔ آزادی کے بعد اس انتہا پسند نظریے کا پہلا شکار عدم تشدد (اہنسا)کے پرچارک مہاتما گاندھی بنے تھے۔بی جے پی کے دور حکومت میں متنازع شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) جیسے امتیازی اقدامات نے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر احتجاج کو جنم دیا،وقت نے میرے اس موقف کودرست ثابت کیا کہ ہر محب وطن اور سمجھدارپاکستانی ہندو شہری بھارتی شہریت بل کے اصل محرکات سے بخوبی واقف ہے اور وہ کبھی بھی اپنی دھرتی ماتا پاکستان سے نقل مکانی کا نہیں سوچے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگرچہ بی جے پی نے اقلیتوں کو سائیڈ لائن کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے، لیکن وہ پوری طرح سے اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ اپنے پیشروؤں کے برعکس مودی نے اپنی کابینہ میں کسی مسلمان کو شامل نہیں کیا تھا، لیکن اب بی جے پی مجبور ہوگئی ہے کہ وہ کیرالہ سے الیکشن لڑنے کیلئے ایک مسلمان سیاست دان کو پارٹی ٹکٹ دے۔تاہم بھارت میں جاری الیکشن کے تناظر میں اصل سوال جوں کا توں ہے کہ اقلیتی مسلمان آخر کس پارٹی کو ووٹ دینے جا رہے ہیں؟ میڈیا رپورٹس کے مطابق اقلیتیں مودی کے خلاف غصے اور ناراضی کا اظہاراس بناپر کر رہی ہیںکہ بی جے پی نے اپنے مذموم سیاسی عزائم کی خاطربھارت کی روایتی سیکولر شناخت کو منفی انداز میں مجروح کیاہے۔ یہ رپورٹس بھی سامنے آرہی ہیں کہ حالیہ الیکشن میں ہندوستانی اقلیتوں کا جھکاؤ کانگریس کی زیرسرپرستی اپوزیشن اتحاد کی طرف ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ماضی میں کانگریس نے مذہبی اقلیتوں کوبہت زیادہ مایوس کیا ہے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں بی جے پی بھی نمبر گیم کو بخوبی سمجھتی ہے اور اقلیتی ووٹوں کے حصول کیلئے مختلف ہتھکنڈے آزمائے جارہے ہیں۔میری نظر میں ہندوستان کی بقاکا راز سیکولرازم میں پنہاں ہے، زمینی حقائق فی الحال مودی کے حق میں ہیں لیکن اسے بھی رواں برس اپنے کرموں کا پھل چکھنا ہوگا اور بی جے پی چارسو نشستوں کی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گی۔میری مالک سے پرارتھنا ہے کہ پڑوسی ملک میں جاری انتخابات کے نتائج پاکستان اور بھارت کی اقلیتوں کے حق میں بہتر ثابت ہوں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)