• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی نژاد صادق خان وہ پہلے شخص ہیں جو لگا تار تین دفعہ لندن کے میئر منتخب ہوئے ہیں اور اس بار انہوں نے کنزرویٹیو حریف سوسن ہال کو تقریباً دو لاکھ چھہترہز ار ووٹوں سے شکست دی ہے ۔ انہوں نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں نہ صرف اپنے والدین کو خراج تحسین پیش کیابلکہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے جنوبی ایشیائی تارکین وطن کے اتحاد کو اپنی کامیابی کاراز قرار دیا۔کچھ مبصرین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کس طرح ایک پاکستانی نژاد ، ایشیائی ورثے اور اسلامی عقیدے کے حامل تارکین وطن کا بچہ جنوبی لندن سے کونسلر منتخب ہوتے ہوتے شہر کا میئر منتخب ہو گیااور کیا پاکستانی معاشرہ بھی کبھی ایسا ہی صاد ق خان پید ا کر سکتا ہے جس کا باپ بس ڈرائیور ہو اور جسے نسلی اور مذہبی تعصب کاسامنا بھی رہا ہو۔ صادق خان 1994ء سے لے کر 2005ء تک لیبر پارٹی کی طرف سے کونسلر منتخب ہوتے رہے ہیں۔ اس دوران انہوں نے ٹونی بلیئر کی پالیسیوںکی نہ صرف کھل کر مخالفت کی بلکہ عراق پر حملے کی بھی بے باکی سے تنقید کی۔لیبر پارٹی میں وہ بائیں بازو کے سوشل ڈیموکریٹ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔2016ء میں وہ زیک گولڈ اسمتھ، جو عمران خان کے سابقہ سالے بھی ہیں، کو شکست دے کر لندن کے میئر منتخب ہوئے۔صادق خان انگلستان کو یورپین یونین میں ہی رکھنے کے حامی تھے اور ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ٹوئیٹر پر بحث کی وجہ سے انہیں بین الاقوامی طور پر کافی مقبولیت ملی۔ 2018ء میں ٹائمز میگزین نے دنیا کی سوبااثر شخصیات کی فہرست شائع کی تو صادق خان کو بھی اس میں شامل کیا گیا۔

سیاسی مدبرین کا خیال ہے کہ جن عوامل کی بنا پر جمہوریت یورپ میں ایک تسلسل کے ساتھ قائم رہی ، وہ سیاسی اقدارہمارے سماج میں تیزی سے ناپید ہوتی چلی جا رہی ہیںاور سیاست ارتقاپذیر ہونے کی بجائے مسلسل زوال پذیری کی نئی نئی جہتوں کو چھو رہی ہے۔ مغربی دنیا میںجہاں فلاحی ریاست اور جمہوریت نے آج اپنے پائوں جمائے ہوئے ہیں، اسکے پیچھے صدیوں کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ دانشوروں، سیاسی مدبروں ، سائنسدانوں اور کسانوں کی قربانیاں شامل ہیں۔یورپ کی تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ قرون وسطیٰ کے یورپ میںبھی فرد کو کوئی آزادی نہیں تھی ، وہ برادری ،چرچ ، بادشاہ اورفیوڈل لارڈز کے چنگل میں پھنسا ہوا تھا۔ تخلیقی عمل رک چکا تھا، ادارے اور روایات اپنی افادیت کھو بیٹھے تھے۔بادشاہ ،فیوڈل لارڈز سے اپنی برتری تسلیم کروانے کیلئے ہر قیمت پر چرچ کی حمایت حاصل کرتا تھا۔بادشاہ ،چرچ اور فیوڈل لارڈز کے اس گٹھ جوڑ کی وجہ سے پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ لوگ چرچ اور مذہبی عقائد کے خلاف کچھ کہنے کی جرات نہیں رکھتے تھے۔پوپ ،چرچ کے عہدے زمین داروں ، جاگیر داروں اور تاجروں کی اولاد وں کو فروخت کرتے تھے جس سے انکا سماجی رتبہ بڑھ جاتا تھا ۔یہ مذہب کے بارے میں کوئی علم نہیں رکھتے تھے لیکن چرچ کے کارڈ ہولڈر ہونے کی وجہ سے وہ دن دگنی اور رات چگنی ترقی کر رہے تھے۔ دریں اثنا یورپ میں پوپ کے اختیارات کم ہونے کے ساتھ ساتھ برطانیہ میں میگنا کارٹا کے قوانین نے بھی سیاسی ارتقا پذیری کو آگے بڑھایا۔15جون 1215ء کو میگنا کارٹا نافذ ہوا جس نے بادشاہ سے جاگیرداروں پر اپنی مرضی سے ٹیکس لگانے کا اختیار چھیننے کے ساتھ ساتھ فرد کو شہری آزادی کے حقوق بھی دلوائے۔یوں یہ کہا جا سکتا ہے کہ پارلیمانی جمہوریت کیلئے برطانیہ میں تقریبا 800سال پہلے ہی کام شروع ہو چکا تھا۔ بہت بعد میں مارٹن لوتھر نے 31اکتوبر 1517ء کو پچانوے نکات پر مشتمل ایک اعلان چرچ کے دروازے پرآویزاں کیا جس میں اس نے پوپ کے عہدے کو ماننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ فرد اور خدا کے درمیان تعلق بغیر کسی مذہبی عہدے دار کے بھی ہو سکتا ہے۔یہ ایک زبردست انقلابی قدم تھا۔ جس سے مذہبی عہدہ داروں کی اہمیت کم ہو گئی۔ سترہویں صدی کے انگلش انقلاب اوراٹھارویںصدی کے فرانسیسی انقلاب نے معاشرے میں نئی فکری اور سماجی دھاروں کو ابھارا جس نے ملوکیت ، جاگیر داری اور پاپائیت کے بتوں کو پاش پاش کر دیا۔جب قانون کی نظر میں سب برابر ہوگئے تو اب ایک ہی معاشرے میں کئی مذہبی فرقوں کا رہنا ممکن ہو گیا اور یوں مذہبی رواداری کا جذبہ پیدا ہوا ۔ اسکے ساتھ ساتھ ریاست نے غیر مذہبی افرادکو بھی تحفظ مہیا کیا اور یوں ریاست مذہبی معاملات میں غیر جانبدار ہوتی چلی گئی ۔سیاسی ادارے اب اپنی افادیت اور اہمیت پر تشکیل پانے لگے اور وقت کے ساتھ ساتھ جمہوریت نے معاشرے میں اپنی جڑیں مضبوط کیں ۔ سیاست میں عام آدمیوں کی شمولیت نے یورپین معاشرے کو ایک نئی جلا بخشی جس سے تعلیم، سائنس ، ٹیکنالوجی ، فلسفہ اور دوسرے سماجی علوم کو ترقی ملی اور یہی وجہ ہے کہ آج پسماندہ ممالک کیلئے یورپ نہ صرف ایک ماڈل ہے بلکہ اس نے اپنی قومی سرحدوں کوختم کرتے ہوئے آج پورے یورپ کو ایک قوم میں تبدیل کر دیا ہے ۔

یورپ کی تاریخ سے یہ سبق ملتا ہے کہ جمہوری اداروں ، قانون کی حکمرانی اور سیکولر ازم ہی کی بدولت اکیسویں صدی میں ایسا معاشرہ تعمیر کیا جا سکتا ہے جہاں ایک مسلمان صادق خان اور ایک ہندو رشی سونک ریاست کے کلیدی عہدوں پر فائز ہو سکتے ہیں۔

تازہ ترین