قارئین کرام! مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت کی دو نکاتی اذیت ناک حقیقت اب مکمل بے نقاب ہے کہ آئینی عمل کو سبوتاژ کرنے والا بار بار مچایا گیا سیاسی کھلواڑ اور تباہ کن حکومتی کرپشن نے آج کے سخت مضطرب پاکستان کو تشویشناک حالت میں پہنچایا۔ ہمارے ریاستی اداروں و ادوار (رجیمز) نے کئی کنگ پارٹیوں کو بھی سیاسی عمل سے ماورا جنم دیا، اس کھلواڑ میں مملکت کی خالق جماعت کبھی کنونشن لیگ، کبھی غیر جماعتی ’’جماعت‘‘ اور کبھی ن لیگ اور کبھی ق لیگ کے روپ میں پیش کی گئی؟ دو عوامی سیاسی جماعتیں بھرپور عوامی تائید سے پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف بنیں لیکن بنتے اسٹیٹس کو (نظام بد) کے رنگ میں جزواً رنگی گئیں۔ پیپلز پارٹی عوام سے بھٹو خاندان کو پیاری ہو گئی، ن لیگ مسلم لیگ سے شریف خاندان کی ٹھہری اور تحریک انصاف نوجوانوں اور اب تو عوام کی بھی سحر انگیز قیادت کے سحر میں تو آ گئی لیکن ملک گیر ہو کر بھی اسے 8فروری کے باکمال مینڈیٹ کے باوجود مطلوب منظم و موثر بننے میں سخت مشکل ہو رہی ہے۔ اسی کا شاخسانہ ہے کہ اس قدر عوامی مقبولیت کے باوجود عمران خان ایک جعلی سیاسی حکومت کے حربوں ہتھکنڈوں سے سینکڑوں رہنمائوں و کارکنوں سمیت بے بنیاد ایف آئی آرز کی اسیری و مقدمات کے ساتھ خود بھی مہینوں سے جیل میں ہیں، یہ سب سیاسی کھلواڑ کے مطلوب سیاسی عمل پر غلبے اور لپیٹ کا دوررس نتیجہ ہے اسی کے نتیجے میں ملکی نحیف و بیمار سیاسی ڈھانچہ اور عمل ، گورننس میں تباہ کن مالی کرپشن کلچر اور اس کی دیدہ دلیری میں مسلسل اضافے کا باعث بنا کہ آج قومی خزانہ خالی اور کرپشن پھر بھی عروج پر، متذکرہ تلخ حقیقت سے تمام تر سکہ بند ثبوتوں کے ساتھ 8فروری کے پس منظر میں نگران حکومت کے مچائے جمہوریت دشمن کھلواڑ اور مکمل قابل مذمت حربوں کے باوجود شعور پکڑتے پاکستانی ووٹروں نے قوت اخوت عوام کا باوقار اور کمال جمہوری مظاہرہ کرتے مافیا راج سے ایسا انتقام لیا کہ اس کی ناجائز کمائی کی دولت غیر آئینی و اختیار و استعمال سے حاصل تمام تر طاقت ڈھیر ہو گئی۔
قیام پاکستان کے بعد قائد کی آنکھ بند ہوتے ہی جو سیاسی سازشوں اور جوڑ توڑ کا ماحول بنا اس نے جلد ہی سیاسی کھلواڑ کی شکل اختیار کرلی، اور اسی ماحول میںکیےگئے حکومتی اقدامات کی پروڈکٹس، گورنر جنرل غلام محمد کا اسمبلی شکن اقدام ،جسٹس منیر کا اس کی تائید کا تباہ کن فیصلہ مارشل لا کا نفاذ پہلے ہی ربع میں بیورو کریسی اور سیاست دانوں کی شعبدہ بازیوں سے آئین سازی ٹلتی رہی جب بڑی تگ ودو اور حکمت سے آئین 1956بنا اور اس پر قومی اتفاق بھی ہوا تو اس کی جگہ نہ بننے دی گئی بڑا سیاسی کھلواڑ پہلے اسکندر مرزا کے مارشل لا سے ہوا ،چند ہی دن میں نہلے پہ دہلا ایوب خان کے مارشل لا کا نفاذہوا جو طویل غیر جمہوری دور کی صورت اختیار کر تو گیا لیکن کمزور سیاسی ڈھانچے اور فوج کے منظم سیٹ اپ اور مرتکز اختیارات کے مقابل کرپشن فری نیک نیتی سے ملکی تعمیروترقی کا عمل بھی شروع ہوا اور تیز بھی، یوں ایوبی کنٹرولڈ ڈیموکریسی ہضم ہوتی گئی نئے نئے محکموں کی ادارہ سازی بھی خوب ہوئی زرعی انقلاب نے بھی سر اٹھایا اور صنعتی عمل بھی شروع ہوا یہی وجہ تھی کہ معاشی ترقی کے اس کور کو ’’سیاسی استحکام‘‘ سمجھا گیا لیکن اس کے نتیجے میں عوام بالخصوص مشرقی پاکستان کی اقتدار میں برابر کی عدم شرکت سے ایک لاوا تیار ہونے لگا مائنس عوام حقیقی آئینی و جمہوری عمل بلبلوں کی ایک چادر تھی جس کے نیچے کچھ اور برا تیار ہو رہا تھا یہاں پر نکتہ سمجھنا آج کی بھی بڑی قومی سیاسی ضرورت ہے کہ تحریک و قیام پاکستان کی جمہوری حیثیت اور خمیر و ضمیر نے پاکستانیوں میں جمہوری جذبے کو ایک سیاسی رخ پر لگا دیا تھا اور قومی معیشت و ترقی اسی کے ناصرف تابع بلکہ یہ سوچ و جذبہ اور یقین پاکستانیوں میں تادم تسلسل سے موجود (SUSTAINABLE)ہے لیکن ملک دولخت ہونے اور آئین بننے اور نفاذ کے ساتھ ہی اس سے حکومتی گریز سول آمریت کی شکل میں سیاسی کھلواڑ پہلے سے بھی زیادہ بدتر شکل میں جاری رکھا نتیجہ ملک گیر انتخابی دھاندلی 1977ء اسکے خلاف احتجاجی تحریک اور اسکے خلاف حکومتی مزاحمت پھر مذاکراتی عمل پر اسیر بھٹو مخالف رہنمائوں کا عدم اعتمادپاکستان کی موجود خستہ حالی اور مسلسل داخلی سیاسی انتظامی اور آئینی کھلواڑ نے تاریخی پس منظر کے سیاسی کھلواڑ اور ہوس اقتدار کو محدود سے جمہوری ارتقا میں حکومتی مالیاتی کرپشن کا زہر گھول دیا۔ اکا دکا واقعات تو ہر دور میں ملیں گے پہلے عشرے میں جو سیاسی کھلواڑ مچے اس میں قومی خزانہ تو محفوظ رہا لیکن سیاسی کھلواڑ کے تسلسل اور مارشل لائی سلسلہ جاری رہنے سے سیاسی کھلواڑ نے غیر آئینی اختیارات سے گورننس میں مالی کرپشن کا دروازہ کھولا۔ اس کا منظم اور وسیع و عام آغاز 1988 کے پہلے انتخابات کے بعد ہوا اور اس میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ آج تمام ریاستی بالائی حرارکی اس کے رنگ میں رنگی ہوئی کیا منظم اور کیا بکھری اکھڑی ہر دو رنگ کی انتظامیہ اور کیا نظم عدل ملک سیاسی کھلواڑ سے ٹوٹنے کے بعد بھی باقیماندہ پاکستان میں بھی آئین کے حقیقی اطلاق سے ہر حکومت کی سخت بیزاری نے جاری و ساری سیاسی کھلواڑ کے ساتھ مالی کرپشن کے جو دھارے بنائے اس نے ایک منظم نظام بد کی شکل اختیار کرلی ہے ۔ پانامہ لیکس میں ہر ادنیٰ کی بڑی بڑی، مشکوک اور ثابت شدہ غیر قانونی بیرونی جائیدادوں کی بے نقابی، بڑےبڑے پبلک ہولڈرز کی بیرون ملک جعلی یا مشکوک کمپنیوں میں انتظامی عہدوں کی پوزیشن کے انکشاف نے عوام کو مکمل یقین دلایا کہ ان کے اقاموں کی اصلی حقیقت منی لانڈرنگ کے کورڈ اور محفوظ چینل کے سوا کچھ نہیں۔ عدالتیں کیا فیصلہ دیتی ہیں،کیا دیئے اور 12اراکین اسمبلی کی تیز ترین قانون سازی سے اربوںکی کرپشن کے سنجیدہ ملزموں کو ریلیف ملا، عوام کی نظر میں منی لانڈرنگ کے سکہ بند مقدمات جس طرح کلین چٹ میں تبدیل ہوگئے، لہٰذا ان کا 8 فروری کا فارم 45 والا فیصلہ ہی عوام کی طرف سے انسداد کرپشن کا کمال عوامی عدالتی فیصلہ تھا جو انہوں نے سخت نامساعد حالات میں دیا۔ آپریشن دبئی ان لاکڈ سے مختلف رپورٹس کے مطابق اب 11، 20 اور 120 ارب ڈالر کی خلیجی ممالک میں مشکوک جائیدادوں کے جس ریکارڈ سے تصدیق ہوئی، عوام کیلئے خبر نہیں بلکہ ان کے پکے سچے یقین کی تصدیق ہے۔ وہ کس کے ہیں؟ یہ جاننے کیلئے کوئی کارروائی ہوتی ہے یا نہیں؟ عوام کا یقین مکمل سچا اور پکا ہےکہ یہ کس کے ہیں۔ انسداد کرپشن کی عالمی صحافی تنظیم جو OCCPRکے پروجیکٹ دبئی آن لاکڈ مکمل کرنے والے تحقیقاتی رپورٹرز کی ہے۔ بس اتنا ہے کہ یہ تمام تر اعداد و شمار اور ہوشربا پاکستانی رقومات کے پاکستان سے دور پہلے سے امیر ممالک کے اثاثوں میں تبدیل ہوتے گئے جن سے پاکستان آج آئی سی یو میں زیر علاج ہے۔ ڈاکٹر کہہ رہے ہیں پہلے ماحول بدلو پھر علاج ہوگا۔