• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کی دنیا میں، ٹیکنالوجی ،سماجی و اقتصادی ترقی کے ایک اہم محرک کے طور پر سامنے آئی ہے۔ یہ تبدیلی مختلف شعبوں مثلاً معاشی ترقی، تعلیم، صحت عامہ و انتظامی امور سے واضح ہے جہاں ٹیکنالوجی اپنی پوری آب و تاب سے اثر انداز نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ ٹیکنالوجیاں ہمارے رہنے سہنے، کام کرنے اور سفر کرنے کے طریقوں تک کو بدل رہی ہیں۔ ان ہی میں سے ایک انتہائی اثر انگیز جدیدترین ٹیکنالوجی انٹرنیٹ ہے۔ انٹرنیٹ عالمی سطح پر وہ رابطہ ہے جو افراد، کاروبار اور حکومتوں کے تعلق کا جدید ذریعہ ہے۔ موبائل ایجادات نےمالیات (Mobile Banking)طب (Tele Medicine)اور تعلیم (E-Learning) جیسی صنعتوں کو جنم دیا ہے۔ موبائل ٹیکنالوجی نے دور دراز علاقوں کے افراد کو بھی بااختیار بنادیا ہے، وہ معلومات، خدمات اور اقتصادی مواقع جو اس سے پہلےان کی دسترس سے باہر تھے اب انکی رسائی میں ہیں۔اسکے علاوہ ٹیلی مواصلات میں جدت طرازی ، خاص طور پر 4G اور G5نیٹ ورکس کی توسیع عالمی سطح پر رابطوں کو تبدیل کر رہی ہے۔ یہ ٹیکنالوجیاںتیز تر انٹرنیٹ فراہم کرنے کی وجہ سے ترقی کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ ٹیکنالوجیاں انٹرنیٹ آف تھنگز ، باعقل شہر (Smart Cities)، اور دیگر اطلاقیات کو بھی فعال کررہی ہیں نیٹ کی کارکردگی اور تعلق کو مزید بہتر بناتی ہیں۔ مثال کے طور پر، کینیا (Kenya) میں M-Pesaموبائل ادائیگی کے نظام نے مالیاتی خدمات خاص طور پر روایتی بینکنگ میں انقلاب برپا کر دیا ہے،بالخصوص محدود رسائی والے علاقوں میںایک اور اہم جدت طراز ٹیکنالوجی ، قابل تجدید توانائی کی ٹیکنالوجی ہے۔ شمسی اور ہوا ئی طاقت ماحولیاتی استحکام اور سماجی واقتصادی ترقی دونوں کیلئے دور رس اثرات رکھتی ہے۔ توانائی کے یہ جدید زرائع روایتی ذرائع کی نسبت زیادہ پائیدار اور ماحول دوست توانائی کی طرف منتقلی کو فروغ دے رہے ہیں۔ قابل تجدید توانائی میں سرمایہ کاری کرنے والے ممالک، جیسے جرمنی اپنی اینرجی وینڈپالیسی کے ذریعے، نہ صرف اپنے ماحولیاتی اثرات کو کم کر رہےہیں بلکہ نئی صنعتوں کو فروغ بھی دے رہے ہیں اور ساتھ ہی قابل تجدید توانائی کے شعبے میں ملازمتوںکے مواقع بھی فراہم کر رہے ہیں ۔

اعلی ٹیکنالوجی کے استعمال نے قوموں کو کس طرح تبدیل کیا ہے اور کس رفتار سے ترقی کے اعلیٰ مقام پر لا کھڑا کیا ہے اس کی ایک اچھی مثال جنوبی کوریا ہے۔اس ایک غریب، جنگ زدہ قوم کی اقتصادی دیو میں تیزی سے منتقلی میں اس کی تکنیکی ترقی سے گہرا تعلق ہے۔ تحقیق و ترقی (R&D) میں سرمایہ کاری، اورسائنس اور انجینئرنگ کی تعلیم پر بھر پور توجہ نے جنوبی کوریا کو ٹیکنالوجی میں عالمی سطح پر اعلیٰ مقام پر پہنچا دیا ہے۔ کئی کمپنیاں جدت طرازی کے مترادف بن گئی ہیں، معاشی ترقی کو تیزی سے آگے بڑھا رہی ہیں اور عالمی سطح پر جنوبی کوریا کا نام اونچا کر رہی ہیں۔

اعلی ٹیکنالوجی کے استعمال کی ایک اور بہترین مثال چین کی ہے۔ چین نے تکنیکی چوٹیوں کو چھونے کیلئے ایک مربوط اور متحرک پالیسی پر عمل کیا ، اس طرح تیزی سے ایک زرعی معاشرے سے عالمی تکنیکی سربراہ کا درجہ حاصل کیا ہے ۔ مصنوعی ذہانت،G 5ٹیکنالوجی، اور ای کامرس (E-Commerce) جیسے شعبوں میں چین کی سرمایہ کاری نے اسے چوتھے صنعتی انقلاب میں ایک اہم کھلاڑی کے طور پر جگہ دی ہے۔ چینی معاشرے کے مختلف پہلوؤں میں ٹیکنالوجی کے انضمام نے نہ صرف اقتصادی ترقی کو فروغ دیا ہے بلکہ اس نے صحت کی دیکھ بھال، بنیادی ڈھانچے اور شہری منصوبہ بندی میں بھی ترقی کی ہے۔

افریقہ کا رخ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ روانڈا ایک اچھی مثال پیش کرتا ہے کہ کس طرح ٹیکنالوجی کا استعمال اسے ترقی کی جانب رواں دواں رکھے ہوئےہے۔ یہ ملک 1994 کی شدید نسل کشی کے بعد ابھرا ہے لیکن ملک کی ڈیجیٹل بنیادی ڈھانچے سے وابستگی، بشمول وسیع پیمانے پر انٹرنیٹ تک رسائی، نے صحت کی دیکھ بھال، تعلیم، اور کاروبار میں پیشرفت کو آسان بنا دیا ہے۔ روانڈا کا طبی سہولیات کی فراہمی کیلئے ڈرون کا جدید استعمال اور تکنیکی جھرمٹوں کا قیام یہ ظاہر کرتا ہے کہ ٹیکنالوجی کس تیزی سے سماجی و اقتصادی ترقی کے خلا کو پر کر سکتی ہے اور ایک قوم کی مجموعی ترقی کے لئے کس قدر اہم ثابت ہو سکتی ہے۔ چین اور جنوبی کوریا جیسے اقتصادی دیوؤں سے لے کر روانڈا جیسی چھوٹی قوموں تک، ٹیکنالوجی کو ملکی ضروریات کے مطابق بصیرت انگیز حکمت عملی کے ساتھ استعمال نے ملکوں کی ترقی کے دروازے کھول دئیے ہیں ۔

پاکستان کیلئے اسی طرح کا راستہ طے کرنے کے لیے، ہمیں پائیدار اور مساوی سماجی اقتصادی ترقی کیلئے ٹیکنالوجی کی طاقت میں سرمایہ کاری اور اس کو بہتر انداز سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا کرنے کیلئے ہمیں معیاری تعلیم، سائنس اور جدت طرازی میں سرمایہ کاری کرکے بنیادی تیار ی کرنی چاہئے۔ ہمیں ایک ایسا ماحولیاتی نظام بھی بنانا چاہیے جس میں نجی ادارے پھل پھول سکیں، اس سے اعلی تکنیکی شعبوں میں لاکھوں نئی ملازمتوں کے مواقعے پیدا ہوں۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار، کسی صوبائی حکومت نے خاموشی سے اس سلسلے میں پیش قدمی کی اور علم پر مبنی معیشت کی ترقی کیلئے خاطر خواہ رقم مختص کرنا شروع کی۔ وزیر اعلیٰ جناب مراد علی شاہ کی دور اندیش قیادت اور جناب بلاول بھٹو کی سرپرستی میں سندھ حکومت نے 22 ارب روپے کی خطیر رقم سندھ کی جامعات اور تحقیقی مراکز کو مضبوط بنانے کیلئے عطیہ کرنا شروع کردی تاکہ وہ سماجی و اقتصادی ترقی کے عمل میں بہتر انداز میں ترقی کر سکیں۔ اس سلسلہ میں صحت کی تعلیم اور تحقیق میں ڈاکٹر عذرا پیچوہو کی خدمات تعریف کی مستحق ہیں ، جن کی وجہ سے جامعہ کراچی میں پہلا جرائم طب مرکز(Forensic Science Center)، ایک وائرولوجی مرکز (National Institute of Virology)اور بہت سے دوسرے ادارے قائم کئے گئے ہیں۔ میں ان سب کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ دوسرے صوبوں کو بھی اسی راستے پر چلنا چاہیے۔ افسوس کہ تمام سرکاری جامعات کا عملی بجٹ اعلیٰ تعلیمی کمیشن کی کوششوں کے باوجود جمود کا شکار ہے۔ لہٰذا مناسب مالی امداد کی غیر موجودگی کے نتیجے میں ہماری ا کثرجامعات کالجوں میں تبدیل ہو گئی ہیں کیونکہ مہنگائی اور پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے ان کی فنڈنگ میں حقیقی معنوں میں 70 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ اس وقت اشد ضرورت وفاقی حکومت ایسے اقدامات کرےجو اس قوم کو علم پر مبنی معیشت کی راہ پر گامزن کر سکے۔

تازہ ترین