• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی بھی ایجاد کے منفی اور مثبت پہلو ہوسکتے ہیں۔ یہ اس ایجاد یا تخلیق کے استعمال کرنیوالے پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اس کو کس طرح اور کس مقصد کیلئے استعمال کرتا ہے۔ بعض ایجادات یا تخلیقات ایسی ہوتی ہیں کہ انکے غلط اور ناجائز استعمال سے استعمال کرنے والا متاثر ہوتا ہے اور بعض کےمنفی اثرات سے نہ صرف فاعل خود بلکہ خاندان اور بعض سے پورا معاشرہ متاثرہوتا ہے۔ اسی طرح کی ایک تخلیق سوشل میڈیا بھی ہے۔ سوشل میڈیا میںفیس بک ، واٹس ایپ، یوٹیوب ،ایکس،انسٹا گرام اور نجانے اور کیا کیا کچھ شامل ہے۔ سوشل میڈیا کا بنیادی مقصد زیادہ سے زیادہ افراد تک مختصر وقت میں اپنا پیغام پہنچانا ہے۔ لیکن پیغام دینے والے کی اخلاقی اور سماجی ذمہ داری بھی ہے کہ پیغام سچ وحقیقت پر مبنی ہو اور اس پیغام سے عوام الناس اور ملک کو کسی طرح کا اخلاقی ، سماجی ، سیاسی، معاشی نقصان نہ پہنچے اور امن و امان متاثر نہ ہو۔بدقسمتی سے کچھ عرصہ سے سوشل میڈیا کو فائدے اور مثبت سوچ کے ساتھ استعمال کرنےکے بجائے منفی طریقے سے استعمال کیا جارہا ہے۔ اسلئے کئی ممالک میں سوشل میڈیا پر کلی طور پرتو نہیں مگراسکے اکثر ٹولز پر پابندی لگائی جاچکی ہے اور ان پابندیوں پر سختی کے ساتھ عمل کیلئے اتنے ہی سخت قوانین بھی بناکر نافذ العمل کردئیے گئے ہیں۔ پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں کھلم کھلا سوشل میڈیا کا غلط اور ناجائز استعمال زوروشور سے کیا جارہا ہے۔ ٹک ٹاک کو نہ صرف بے حیائی اور فحاشی پھیلانے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے بلکہ اسکے منفی استعمال سے کئی نوجوان موت کا شکار بھی ہوتے ہیں۔ فیس بک پر جعلی اکاؤنٹس بناکر لڑکوں اور لڑکیوں کی ناجائز دوستیاں بننے سےکئی لڑکیاں اپنی عزتیں گنوا کر اپنے گھر والوں اور خاندان کی بدنامی وبے عزتی کی باعث بن جاتی ہیں۔ اسی طرح واٹس ایپ ، ایکس اور انسٹا گرام کو بھی اکثر غیر اخلاقی اقدار کو فروغ دینے کیلئےاستعمال کیا جاتا ہے۔سوشل میڈیا کا ایک اور غلط استعمال جھوٹی خبروں کے پھیلاؤکیلئے کیا جاتا ہے۔ جھوٹی، من گھڑت اور بے بنیاد خبروں اور پیغامات کے ذریعے لوگوں خصوصاً نوجوان نسل کی منفی ذہن سازی کی جاتی ہے۔ جھوٹی خبروں کو پھیلانے سے نہ صرف عزت دار لوگوں کی عزتیں اچھالی جاتی ہیں بلکہ ریاست میں سیکورٹی معاملات، امن وامان، ریاستی اداروں میں آپسی ٹکراؤ اور ان اداروں اور عوام میں بدگمانیاں پیدا کرکے خلیج پیدا کرنے اور معاشی طور پر ملک کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کی جاتی ہیں جو ملک وقوم کیلئے انتہائی نقصان دہ ہیں۔ سوشل میڈیا لوگوں کی نفسیات میں شامل ہورہا ہے اور اس میں شہری، دیہاتی کا فرق بھی ختم ہوتا جارہا ہے حتیٰ کہ ڈاکو بھی ان ہی ذرائع سے سادہ لوح لوگوں کو پھنسا کر یرغمال بناتے اور پھر انکے گھر والوں سے بھاری تاوان وصول کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے غلط استعمال سے برائی کے نت نئے طریقے پھیلائے جاتے ہیں جن کےزیادہ شکار نوجوان لڑکے لڑکیاں بنتے ہیں۔ جھوٹی خبروں اور افواہوں کے ذریعے معاشرے میں منفی رویے جنم لے رہے ہیں۔سوشل میڈیا کے ذریعے فریب، نوسر بازی، بلیک میلنگ،فحاشی اور مرد وزن میں غیر اخلاقی وغیر اسلامی حرکات پھیلانے کا سلسلہ عروج پر ہے جو ہمارے معاشرےکیلئے انتہائی خطرناک ہے۔ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال تو شاید اب بہت کم رہ گیا ہے۔ بلکہ ان پلیٹ فارمز کی وجہ سے ہراسانی، جھوٹی خبروں، افواہوں، ملک میں فساد پھیلانے ، عوام کو بدگمان کرنے اور تشویش میں مبتلا کرنےجیسے جرائم میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے معزز جج صاحبان، دفاعی اداروں کی اعلیٰ قیادت اور ریاستی اداروں کے بارے میں جھوٹی خبریں، افواہیں اور غلیظ پروپیگنڈا معمول بن چکا ہے۔ یہ سب کچھ کسی بھی طرح اظہار رائے کی آزادی کے زمرے میںنہیںآتا اور نہ ہی دنیا کے کسی بھی ملک میں اس کی اجازت ہے۔ تو پھرسوال یہ ہے کہ پاکستان میں ان مادر پدر آزاد لوگوں کو شتربے مہار کیسے چھوڑا جاسکتا ہے۔ یہاں تو حالت یہ ہے کہ سابق پی ٹی آئی حکومت کے دور میں ایک موقع پر یوٹیوب کو بند کیا گیا تواس وقت کا ایک وفاقی وزیر یو ٹیوب کی حمایت میں میدان میں آیا اور چند ہی دنوں میں یوٹیوب دوبارہ فعال ہوگیا۔ اب جب سوشل میڈیا کے ایک پلیٹ فارم ’’ ایکس‘‘ پر پابندی لگائی گئی تو بعض لوگ عرضی لیکر عدالتوں میں پہنچ گئے ہیں کہ اس کو دوبارہ بحال کیا جائے۔ سوشل میڈیا کا ریاست اور ریاستی اداروں کیخلاف سب سے زیادہ منفی اور غلط استعمال ایک مخصوص جماعت نے شروع کیا جوابھی تک جاری ہے۔ اسکے علاوہ ملک میں امن وامان اور سیکورٹی خدشات سے متعلق جھوٹی خبریں، افواہیں اور پروپیگنڈا کرکے غیر ملکی سرمایہ کاروں میں بدگمانیاں بھی یہی لوگ محض اسلئے پھیلاتے ہیں کہ ملکی معیشت کی بہتری کی طرف سفر کو روکا جاسکے۔ SIFCکے بارے میں بھی غلط پروپیگنڈا کا مقصد یہی تھا کہ معاشی بہتری کے راستے میں روڑے اٹکائے جائیں۔ان چیلنجز سے نمٹنے کیلئے قانونی فریم ورک کی مضبوطی اور پاکستان کی ڈیجیٹل خودمختاری کیلئے کوششیں ناگزیر ہیں۔ آن لائن پلیٹ فارمز پر خواتین کی فعال شرکت ملکی ترقی میں خواتین کا کردار نہایت ضروری ہے جس کیلئے محفوظ ماحول فراہم کرنا بھی بہت اہم ہے۔ ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی سوشل میڈیا صارفین کے تحفظ وحقوق کیلئے اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ یہ اتھارٹی سوشل میڈیا کمپنیوں کے تعاون سے آن لائن ہراسانی کی روک تھام کیلئے پالیسیاں تیار کرسکتی ہے۔ پاکستان کی ڈیجیٹل خود مختاری، آن لائن ہراسانی اور سیکورٹی جیسے اہم چیلنجز سے نمٹنے کیلئے مربوط قومی اقدام ناگزیر اور وقت کی اہم ضرورت ہے۔ امید ہے کہ حکومت اس سلسلے میں فوری اقدامات کرےگی۔

تازہ ترین