آج سے دو روز بعد جب میاں نواز شریف دوبارہ سے نواز لیگ کے صدر منتخب ہورہے ہونگے تو وہ اپنی وزارت عظمیٰ کے دوسرے دور میں 28 مئی 1998 میں کیے گئے ایٹمی دھماکوں (تجربات) کے حوالے سے چھبیسویں یوم تکبیر کی سالگرہ کا کیک کاٹتے ہوئے شاید پھر سے سوچ رہے ہونگے کہ اُنہیں پھر کیوں نکالا گیا؟ اسوقت کے بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی جنہوں نے پاکستان سے سترہ روز پہلے 11 مئی 1998کو پوکھران-2 (یعنی آپریشن شکتی) کے ناطے اپنے ایٹمی دھماکے کر کے بھارت کو چھٹی نیوکلیئر پاور بنانے کا اعزاز پایا تھا اور وہ اس لیے بھی اس پر ناز کر سکتے تھے کہ نیوکلیئر بٹن بھارتی وزیراعظم کے ہاتھ میں ہوتا ہے، حالانکہ بھارتی نیوکلیئر پروگرام کا آغاز بھارتی سائنسدان بہومی بھابھا نے 1948 میں کردیا تھا اور واجپائی سے بہت پہلے وزیراعظم اندرا گاندھی پاک بھارت جنگ میں خلیج بنگال میں امریکی بحری بیڑے کی آمد اور سوویت یونین کی جانب سے نیو کلیئر اسلحہ سے لیس آبدوزوں کی فراہمی کے تجربے سے گزر کر اس نتیجہ پہ پہنچیں کہ چین کے 1964 کے نیوکلیئر تجربات جو 1986 تک جاری رہے کے جواب میں بھارت بھی ایٹمی طاقت بنے۔ لہٰذا ’’مسکراتے بدھا‘‘ یا مسکراتا کرشنا کے نام پر اندرا گاندھی نے 18مئی 1974کو ایٹمی تجربات کر کے بھار ت کو ایٹمی اسلحہ سے لیس طاقت ہونے کا اعلان کردیا۔ اس کے بعد نیوکلیئر سپلائرز گروپ کا قیام عمل میں آیا اور نیوکلیئر ہتھیاروں سے متعلق دیگر معاہدے بھی سامنے آئے۔ بھارت کا نیوکلیئر طاقت بننا تھا کہ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو جو بھارت سے ایک ہزار سال تک جنگ کرنے کے داعی تھے کیوں نچلے بیٹھ سکتے تھے اور انہوں نے 1974 ہی میں نیوکلیئر اسلحہ کی دوڑ میں بھارت کا مقابلہ کرنےکیلئے ایک بڑی ہی اعلیٰ ٹیم کو اکٹھا کیا جس کی سربراہی منیر احمد خان کو سونپی گئی جس میں بعد ازاں ڈاکٹر عبدالقدیر خان جو ایک میٹرلجیکل انجینئر تھے بھی شامل ہو گئے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ہالینڈ سے ایٹمی کورز کی ڈرائنگز چرالائے تھے، دراصل پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں چین کی ہر طرح کی مدد پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے میں ممد ثابت ہوئی۔ اگر ایٹمی طاقت بننے کا سہرا کسی کے سر بندھنا ہے تو وہ ذوالفقار علی بھٹو ہی تھے جنہیں تختہ دار پہ چڑھادیا گیا، جس پر انکی شہادت کے بعد بھی کام جاری رہا۔ تمام تیاری مکمل تھی اور 1998 میں پاک بھارت کشیدگی کے دوران ایٹمی اسلحہ متحرک پایا گیا تھا۔ جونہی بھارت نے دھماکے کیے توپاکستان نے بھی سترہ روز کے اندر جوابی دھماکے کر ڈالے۔ نواز شریف کا بس یہ اعزاز ہے کہ انہوں نے امریکی دباؤ کے باوجود اور 5 ارب ڈالرز کی امداد کو رد کرتے ہوئے ایٹمی تجربات کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر انکی حکومت کا بھی 1999میں تختہ اُلٹ دیا گیا اور وہ ہائی جیکنگ کیس میں عمر قید کی سزا پانے کے حقدار ٹھہرے۔ بھارت اور پاکستان کا شمار اسوقت دنیا کے پسماندہ اور غریب ممالک میں ہوتا تھا اور ہر دو اطراف کے رہنماؤں نے نیوکلیئر اسلحہ کی دوڑ شروع کر کے برصغیر کو ایک خوفناک ایٹمی جنگ کے امکان کی طرف دھکیل دیا۔ اسوقت سوویت یونین اور امریکہ میں عالمی سطح پر نیوکلیئر اسلحہ کی خوفناک دوڑ جاری تھی اور دونوں سپر پاورز کے مابین سرد جنگ عروج پہ تھی۔ لیکن ان کے مابین نیوکلیئر اسلحہ کے حوالے سے نیوکلیئر ڈپلومیسی بھی چل رہی تھی۔ اس دوران چین بھی اس دوڑ میں شامل ہوگیا اور 1962میں بھارت چین جنگ میں شکست کے بعد بھارت بھی اس دوڑ میں شامل ہوگیا جس میں بعد ازاں بھارت کے مقابلے میں پاکستان بھی اس میدان میں کود گیا۔ جب برصغیر میں ایٹمی دھماکے ہورہے تھے تو ایٹمی اسلحہ کے پھیلاؤ کو روکنے والے عناصر بھی ان دھماکوں کے خلاف میدان میں اترے تھے۔ ہم نے بھی ایک نان پرولفریشن کولیشن بنائی تھی، لیکن ہماری آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوئی، برصغیر ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں کود پڑا جس کے پڑوسی ممالک بھارت اور پاکستان میں خوفناک علاقائی جھگڑے چل رہے تھے اور دو تین جنگیں لڑ چکے تھے۔ اس وقت جو سوال اٹھے تھے وہ اب بھی منہ پھاڑے کھڑے ہیں۔ یہ کہ نیوکلیئر اسلحہ کی دوڑ کو دوام حاصل ہے اور فریقین باہمی تباہی کی استطاعت بڑھانے کی فکر میں ایک دوسرے پہ سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ نتیجتاً دنیا میں اور برصغیر میں یہ دوڑ خوفناک طریقے سے جاری ہے۔ ابھی تک ایسا کوئی میکنزم دریافت نہیں ہوا جو حادثاتی ایٹمی جنگ کا سو فیصد سدباب کر سکے۔ ماحولیاتی تباہی اتنی بڑھ گئی ہے کہ کرہ ارض انسانوں کے ہاتھوں بربادی کے در پر ہے۔ خوش فہمی کہ ایٹمی جنگ جیتی جاسکتی ہے ایک خوفناک مذاق ہے۔ ایٹمی جنگ اور اس کے تابکاری اثرات ایک علاقے تک محدود نہیں رہتے۔ اب یہ ایک گنجلک صورت اختیار کر چکی ہے۔ روس ایٹمی اسلحے میں امریکہ سے آگے ہے اور چین امریکہ سے مقابلے میں آگے بڑھنے کی کوشش میں ہے، جبکہ بھارت چین کا ہم پلہ بننے کی جستجو کر رہا ہے۔ لہٰذا پاکستان بھی بھارت کے تعاقب میں ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ بھارت چین سے نیوکلیئر مقابلے میں تھک جائے گا اور پاکستان بھارت سے مقابلے میں دم ہار بیٹھے گا۔ جب ایٹمی دھماکے کیے جارہے تھے تو یقین دلایا گیا تھا کہ یہ ایٹمی دھماکے روایتی ہتھیاروں میں غیر مساوی طاقت کے عدم توازن کو دور کرنے کیلئے ہیں اور ان ایٹمی ہتھیاروں سے روایتی اسلحہ کی دوڑ کم ہوجائے گی اور جنگ کا خطرہ ٹل جائے گا۔ لیکن روایتی اسلحہ کی دوڑ پھر بھی جاری رہی اور چھوٹی موٹی سرحدی جنگیں اور خاص طور پر پراکسی وارز جاری ہیں۔ اب جبکہ برصغیر میں باہمی تباہی کا توازن قائم ہو چکا ہے تو ان ہتھیاروں کی خطرناک موجودگی سے حفاظت کا کوئی مناسب اور حقیقی بندوبست کیا جائے۔ ایٹمی اسلحہ کی دوڑ کو کنٹرول کیا جائے اور ان ہتھیاروں کی سلامتی اور بہ حفاظت موجودگی کو یقینی بنایا جائے۔ بدقسمتی سے برصغیر میں نہ تو نیوکلیئر ڈپلومیسی کی کوئی روایت ہے، نہ کوئی مشترک نیوکلیائی زبان ہے۔ جبکہ روس اور امریکہ میں ڈپلومیسی کے آداب بہت پہلے طے کرلیے گئے تھے۔ گوکہ بھارت ایٹمی اسلحہ کے استعمال میں پہل نہ کرنے کے عہد کا اظہار کرتا رہتا ہے، لیکن پاکستان کو بھارت پہ شک بہت ہے۔ برصغیر کے حالات بھی بہت کشیدہ ہیں اور پاک بھارت سفارتی تعلقات تقریباً منقطع ہیں۔ ضروری ہے کہ نیوکلیئر اسلحہ کی دوڑ، کسی واضح جنگ کے سدباب کیلئے معاہدے کیے جائیں اور حادثاتی جنگ کو روکنے کا بندوبست کیا جائے۔ برصغیر کے لوگ ایٹمی اسلحہ کی حفاظت میں زندگی نہیں گزار رہے۔ بلکہ ہر دم ایک نیوکلیئر قیامت کا خطرہ موجود ہے۔ نیوکلیئر اسلحہ لوگوں کی کیا حفاظت کرتا۔ ان ہتھیاروں کی حفاظت آج سب سے بڑا درد سر ہے۔یہ بنیادی تقاضا اور ضرورت ہے کہ روایتی اور نیوکلیئر جنگ سے بچنے کیلئے بھارت اور پاکستان عدم جنگ کا معاہدہ کریں اور کشیدگی کو ختم کرنے کی طرف بڑھیں۔