• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ابراہیم رئیسی کی شہادت کے ایران اور خطے پر اثرات

ایران کے صدر، ابراہیم رئیسی گزشتہ دنوں ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں شہید ہوگئے۔دنیا بَھر میں اِس اندوہ ناک حادثے پر شدید غم و دُکھ کا اظہار کیا گیا۔عالمی رہنماؤں نے تعزیّتی پیغامات جاری کیے اور اقوامِ متحدہ میں ایک منٹ کی خاموشی بھی اختیار کی گئی۔ایران کے رہبرِ اعلیٰ، آیت اللہ خامنہ ای نے ایران میں پانچ روزہ سوگ کا اعلان کیا۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم، شہباز شریف نے صدر رئیسی کی آخری رسومات میں شرکت کی اور مُلک میں سرکاری سطح پر یومِ سوگ بھی منایا گیا۔

ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کو یہ حادثہ اُس وقت پیش آیا، جب وہ پڑوسی مُلک، آذربائیجان میں ایران کی معاونت سے تعمیر کردہ ڈیم کے افتتاح کے بعد واپس وطن لَوٹ رہے تھے۔ اطلاعات کے مطابق موسم انتہائی خراب تھا، طوفانی بارش اور دُھند کی وجہ سے حدِ نگاہ تقریباً ختم ہوگئی تھی، جس کے سبب ہیلی کاپٹر کو’’ ہارڈ لینڈنگ‘‘ کرنا پڑی۔ ہوا بازی کی زبان میں ہارڈ لینڈنگ کا مطلب ہے، جب کوئی اور چارہ نہ رہ جائے اور رِسک لینا ضروری ہو۔ مشرقِ وسطیٰ کی صُورتِ حال اِن دنوں شدید کشیدہ ہے۔ 

غزہ میں لڑائی اور قتلِ عام جاری ہے، جس میں ایران کی حمایت یافتہ مسلّح تنظیمیں کُھل کر حصّہ لے رہی ہیں، جب کہ ایران نے اسرائیل پر اپنی سرزمین سے تین سو ڈرونز اور میزائلوں سے حملہ کیا، جو اسرائیل کے دمشق حملے کا جواب تھا۔ یاد رہے، اسرائیل کی جانب سے دمشق میں موجود ایرانی قونصل خانے پر کیے گئے اِس حملے میں ایرانی پاس دارانِ انقلاب کے اہم کمانڈر ہلاک ہوئے تھے۔ ایسی فضا میں صدر کے حادثے پر سازشی تھیوریز کا سامنے آنا کوئی حیرت کی بات نہیں۔ 

کچھ مبصّر اِسے اسرائیل سے جوڑ رہے ہیں، جب کہ اسرائیل نے حادثے کے فوراً بعد اِس طرح کے الزامات مسترد کردئیے تھے۔بتایا جاتا ہے کہ اب تک ایک درجن سے زیادہ سربراہانِ مملکت فضائی حادثات میں ہلاک ہوچُکے ہیں، لیکن آج تک اُن میں سے کسی بھی حادثے کی تسلّی بخش رپورٹ سامنے نہیں آئی۔جنرل ضیاء الحق کا حادثہ بھی ایسے ہی حادثات میں شامل ہے۔ایران کے صدر کے ساتھ اُن کے وزیرِ خارجہ بھی جاں بحق ہوئے، جو مشرقِ وسطیٰ میں سفارتی کوششوں میں فرنٹ رول ادا کر رہے تھے۔

ظاہر ہے، جب صدر رئیسی جیسا عالمی اہمیت کا کوئی لیڈر اچانک کسی ناگہانی حادثے کی وجہ سے عالمی منظر نامے سے ہٹ جائے، تو اُس کے اندروانی، علاقائی اور بیرونی معاملات پر اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔ صدر رئیسی اِس حادثے سے پندرہ روز قبل پاکستان تشریف لائے تھے اور یہ مشرقِ وسطیٰ میں ایرانی حملے کے بعد اُن کا کسی بھی مُلک کا پہلا دورہ تھا۔وہ ایک سخت گیر اور بہادر لیڈر مانے جاتے تھے، جب کہ اُن سے متعلق یہ خبریں بھی عام تھیں کہ وہ رہبرِ اعلیٰ کے ممکنہ جانشین ہوں گے، جس سے اُن کی خامنہ ای سے قربت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

ابراہیم رئیسی، جس صدارتی ہیلی کاپٹر میں سفر کر رہے تھے، وہ امریکی کمپنی، بیل کا تیار کردہ تھا۔اِس ماڈل کو’’ بیل 212 ‘‘ کا نام دیا گیا تھا اور اسے پہلی مرتبہ1960 ء میں ویت نام جنگ میں امریکا نے استعمال کیا۔اس میں مسافر، سامان اور ہتھیار لے جائے جا سکتے ہیں۔ شہنشاہِ ایران کے زمانے میں ایرانی حکومت نے یہ ہیلی کاپٹر امریکا سے حاصل کیے۔اُس وقت وہ امریکی دفاعی معاہدے، سینٹو کا رُکن تھا اور اُس کے امریکا کے ساتھ دو طرفہ دفاعی معاہدے بھی تھے۔

بیل ہیلی کاپٹرز کی یہ قسم نجی اور سرکاری، دونوں طرح کے ادارے استعمال کرتے ہیں۔ درحقیقت، یہ1960 ء میں کینیڈین فوج کے لیے بنایا گیا تھا، اِس کے دو انجن ہوتے ہیں اور ایران نے اسے اس طرح موڈیفائی کیا تھا کہ وہ صدر کے استعمال میں آسکے۔ یہ معلومات جان لینا اِس لیے ضروری ہیں کہ جب بھی کسی طیارے یا ہیلی کاپٹر کو کوئی حادثہ پیش آتا ہے، تو اس کی پہلی جواب دہی مینوفیکچرنگ کمپنی کے ذمّے ہوتی ہے کہ کیا اِس قسم کے ماڈل میں کوئی ایسا فالٹ تو نہیں، جو اسے پرواز کے لیے خطرناک بنا دیتا ہے۔ 

اِس سلسلے میں اکثر بلیک باکس کا بھی ذکر ہوتا ہے، جس سے مسافر طیاروں کی آخری معلومات حاصل ہوجاتی ہیں۔بیل ہیلی کاپٹر کی ایک جدید قسم ’’بیل 412 ‘‘ بھی سامنے آچُکی ہے، جو آگ بُجھانے سے لے کر مسافر برداری تک کے کام آ رہا ہے۔اس میں عملے سمیت پندرہ افراد کی گنجائش ہے اور یہ260 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے پرواز کرتا ہے۔ واضح رہے، ایوی ایشن سیفٹی نیٹ ورک سائٹ کے مطابق،’’ بیل212 ‘‘ ہیلی کاپٹر کو گزشتہ64 سالوں میں432 حادثے پیش آچُکے ہیں، جن میں630 افراد ہلاک ہوئے۔

امریکی پابندیوں کی وجہ سے ایران کے لیے اِس بیل ہیلی کاپٹر کے اسپیئر پارٹس حاصل کرنا آسان نہیں تھا، تاہم، چوں کہ یہ کینیڈا سے تھائی لینڈ تک استعمال ہوتا ہے، اِس لیے ایران کے لیے فاضل پرزہ جات کا حصول مشکل ضرور، مگر ناممکن نہیں تھا۔ایک سوال یہ بھی ذہن میں آتا ہے کہ امریکا اور اسرائیل سے سخت دشمنی کے باوجود ایران کے صدر 64 سال پرانا ہیلی کاپٹر کیوں استعمال کر رہے تھے، جب کہ ایران کی جانب سے تو جدید ڈرونز، میزائلز یہاں تک کہ خلائی راکٹس تک بنانے کے دعوے سامنے آتے رہتے ہیں۔

آگے بڑھنے سے قبل ایران کی اندرونی اور بیرونی سیاسی صُورتِ حال پر ایک نظر ڈال لینی چاہیے اور پھر یہ بھی دیکھا جائے کہ پاکستان اِس سے کس طرح متاثر ہوسکتا ہے۔ ویسے تو اِس قسم کے حادثات متاثرہ ممالک کے اندرونی معاملات ہوتے ہیں اور ان کا دوسرے ممالک سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا، سوائے اس کے کہ دُکھ میں شریک ہوا جائے اور ہم دردی کی جائے۔ تاہم، صدر رئیسی کا معاملہ بعض وجوہ کی بنا پر ذرا مختلف ہے۔

ایران کا ایک مستحکم سیاسی نظام ہے، جسے آیت اللہ خمینی کی منظوری سے نافذ کیا گیا، جو انقلاب کے بانی تھے۔ اِس نظام میں رہبرِ اعلیٰ ہر معاملے میں سپریم اور قانون سے بالاتر ہے۔ طاقت نافذ کرنے والے تمام ادارے اور نیشنل سیکیوریٹی کاؤنسل اس کے ماتحت ہیں۔ایرانی آئین کے مطابق، اگر صدر اپنے فرائض انجام دینے کے قابل نہ رہے، تو اُسے رہبرِ اعلیٰ کی منظوری سے ہٹایا جاسکتا ہے اور نائب صدر اُس کا عُہدہ سنبھال لیتا ہے، جس کے لیے رہبرِ اعلیٰ کی منظوری ضروری ہے۔ہیلی کاپٹر حادثے کے بعد اوّل نائب صدر محمّد مخبر کو رہبرِ اعلیٰ کی منظوری کے بعد صدر کے عُہدے پر فائز کر دیا گیا۔

اُنہوں نے اپنے پہلے کابینہ اجلاس سے خطاب میں کہا کہ نظام میں کوئی تعطّل نہیں آئے گا۔ایرانی آئین کے مطابق، اب پچاس دنوں کے اندر نئے صدر کا انتخاب ہوگا۔ صدر کے انتخاب کا طریقہ خاصا پیچیدہ ہے۔ یاد رہے، ایران ایک تھیوکریٹک اسٹیٹ ہے اور وہ اس پر فخر بھی کرتا ہے۔ ایران کا ہر شخص جو عاقل بالغ ہے اور اُس کی عُمر پینتالیس سال ہو، صدر کے عُہدے کے لیے انتخاب لڑ سکتا ہے۔ تاہم، اُسے اپنے نام زدگی کے کاغذات رہبر کاؤنسل کو پیش کرنے ہوتے ہیں، جس کی صدارت رہبرِ اعلیٰ کرتے ہیں۔ وہاں سے کلیئرنس ملنے پر ہی کوئی شخص اُمیدوار بن سکتا ہے۔

جب ابراہیم رئیسی صدارتی الیکشن میں امیدوار بنے، تو دیگر9 افراد نے بھی رہبر کاؤنسل کو اپنے کاغذات بھیجے تھے، جن میں آیت اللہ خمینی کے صاحب زادے بھی شامل تھے، لیکن خمینی صاحب کے بیٹے سمیت زیادہ تر امیدوار نااہل قرار پائے، یوں ابراہیم ریئسی نے یہ انتخاب تقریباً اکیلے ہی لڑا۔اطلاعات کے مطابق ابراہیم رئیسی کے الیکشن میں مختلف وجوہ کی بنا پر ووٹرز ٹرن آئوٹ تیس فی صد سے کچھ ہی زیادہ تھا۔ بہرحال، اِس پراسس سے گزر کر صدارتی الیکشن لڑنا ہوتا ہے، جس کی گائیڈ لائنز بہت واضح ہیں۔

رہبرِ اعلیٰ صدر یا پارلیمان کی کسی بھی قرارداد کو بائی پاس کرسکتے ہیں۔ایرانی صدر، خارجہ امور اور اقتصای معاملات دیکھتے ہیں، اِسی لیے ابراہیم رئیسی کے منشور میں کرپشن کا خاتمہ، معیشت کی بہتری اور روزگار کی فراہمی جیسے امور شامل تھے، لیکن وہ اپنے ایک ہزار دنوں میں کوشش کے باوجود اہداف حاصل نہ کرسکے۔اُنھوں نے امریکا سے نیوکلیئر ڈیل بحال کروانے کی بھی کوشش کی، مگر کام یابی نہ ملی۔ 

البتہ، قطر کی ثالثی سے امریکی قیدیوں کی رہائی کے بدلے چھے ارب ڈالرز لینے میں کام یاب رہے۔ نیز، اُنھوں نے مشرقِ وسطیٰ کی جنگ کو علاقائی یا عالمی جنگ نہیں بننے دیا۔ ایرانی معیشت گزشتہ پندرہ، بیس برسوں سے آزمائش میں ہے اور آج بھی صُورتِ حال بہت خراب ہے۔ ایرانی ریال، ڈالر کے مقابلے میں بُری طرح گرا ہوا ہے، بے روزگاری عام ہے اور شہریوں کو رہائش گاہوں کی کمی کا سامنا ہے۔

پاس دارانِ انقلاب اور دوسرے سیکیوریٹی ادارے براہِ راست رہبرِ اعلیٰ کو جواب دہ ہیں۔ موجودہ صدر محمّد مخبر بھی ایران کے سب سے طاقت وَر معاشی ادارے کے سربراہ ہیں اور وہ بھی سوائے رہبرِ اعلیٰ کے کسی کو جواب دہ نہیں تھے۔ ایران اب تک انقلاب پسندی پر سختی سے قائم ہے۔ تاہم، اُسے اندرونی تقسیم کا بھی سامنا ہے، جو منہگائی اور بے روزگاری سے پیدا ہوئی۔ایک طرف سخت گیر ہیں، جو قدامت پسند کہلاتے ہیں، یہ افراد انقلاب کو اُس کی اصل شکل میں جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ ان میں رہبرِ اعلیٰ کے ساتھ صدر رئیسی بھی شامل تھے، جب کہ دوسری طرف اصلاح پسند ہیں، جن کا کہنا ہے کہ ایران کی معاشی صُورتِ حال دیکھتے ہوئے پالیسی میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔

سابق صدر ہاشمی رفسنجانی، احمد رجائی اور سابق صدر حسن روحانی اسی نظریے کے حامل ہیں۔حسن روحانی نے دونوں مرتبہ صدارتی انتخاب معیشت کی بہتری کے نعرے پر لڑا اور فتح پائی۔ اُنہوں نے امریکا سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی، جس کا ثبوت وہ نیوکلیئر ڈیل ہے، جس پر ایران اور مغربی طاقتوں نے دست خط کیے۔ایران کو اوباما دَور میں اس ڈیل کے نتیجے میں منجمد اثاثوں میں سے چالیس بلین ڈالرز ملے، جس سے کچھ عرصے کے لیے اس کی معیشت سنبھلی اور ایران کے لیے دنیا کی تجارت کے دروازے بھی کُھلے۔آج بھی لوگوں کو نیوکلیئر ڈیل کی خوشی میں تہران کی سڑکوں پر رات بَھر جشن منائے جانے کے مناظر یاد ہیں۔

وہاں گزشتہ برسوں میں اصلاح پسند نوجوانوں کی طرف سے احتجاج ہوتا رہا ہے، جس میں ہلاکتوں اور املاک کو نقصان پہنچانے کی متضاد خبریں آتی رہیں، لیکن اِس امر میں کوئی شک نہیں کہ ایرانی حکومت کی گرفت اب بھی مضبوط ہے اور پاس دارانِ انقلاب، جو اِس انقلاب کے محافظ ہیں، اب تک اندرونی اور بیرونی محاذوں پر اپنے مقاصد کو بروئے کار لانے میں کام یاب رہے ہیں۔

عراق میں ایک ڈرون حملے میں مارے جانے والے جنرل سلیمانی اس کے سربراہ تھے، جنہیں ایران کا دوسرا سب سے طاقت وَرشخص کہا جاتا تھا۔ سلیمانی، ایران کی اُس جارحانہ خارجہ پالیسی کی بھی نگرانی کرتے تھے، جس کے ذریعے مشرقِ وسطیٰ اور اردگرد کے ممالک میں انقلاب کے مقاصد کو بروئے کار لایا جاسکے۔

ایران کی حمایت یافتہ مسلّح تنظیمیں، جن میں حزب اللہ، حماس، حوثی باغی اور عراقی گروہ شامل ہیں، پاس دارانِ انقلاب کی ماتحتی میں کام کرتی ہیں۔ صدر رئیسی نہ صرف رہبرِ اعلیٰ کے بہت قریب تھے، بلکہ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ وہ اُن کے ممکنہ جانشین بھی تھے۔ اُن کے منظر نامے سے ہٹنے کے بعد اب رہبرِ اعلیٰ اور کاؤنسل کو ایسے صدر کی تلاش ہوگی، جو پوری طرح رہبرِ اعلیٰ کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلے۔ نیز، ایران کی کم زور معیشت بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔

رئیسی حکومت کو غزہ کی جنگ اور بعدازاں اسرائیل پر حملے سے جو مقبولیت ملی تھی، اُس میں کم زور معیشت اور منہگائی کی وجہ سے کمی آئی۔ غالباً اِسی لیے رئیسی صاحب نے بھارت کے ساتھ ایک دس سالہ معاہدہ کیا تاکہ بھارتی سرمایہ کاری کو راغب کیا جاسکے۔دوسری جانب، وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ امریکا، بھارت پر پابندیاں نہیں لگائے گا، اِس لیے اُس کی سرمایہ کاری سے ایران امریکی پابندیوں کو کند کرنے کے قابل رہے گا۔

گو، ایران کے سیاسی یا انتظامی نظام میں رئیسی صاحب کی شہادت سے کسی تعطّل کا خطرہ نہیں، تاہم وہاں کی قیادت کے لیے یہ چیلنج ضرور ہوگا کہ کسی ایسے شخص کو سامنے لایا جائے، جو انقلاب کی ذمّے داریاں پوری کرنے کے ساتھ، گرتی معیشت کو بھی سہارا دے سکے۔ جب حسن روحانی کا صدر کے لیے انتخاب کیا گیا، تو یہی امر پیشِ نظر تھا، حالاں کہ اُن کی کابینہ سے متعلق عام رائے تھی کہ مغربی ممالک سے پی ایچ ڈی کرنے والے جتنے افراد اُن کی کابینہ میں شامل ہیں، اِتنے تو خود امریکا اور برطانیہ کی حکومت کا حصّہ نہیں ہیں۔ 

حسن روحانی نے تمام تر مشکلات اور قدامت پسندوں سے اختلافات کے باوجود امریکا اور مغربی طاقتوں سے ایٹمی ڈیل کی۔ اُنھیں قدامت پسندوں کی شدید مخالفت کا سامنا رہا، لیکن وہ عوام میں بہت مقبول تھے۔اِس وقت مشرقِ وسطیٰ میں ایک نیا عُنصر داخل ہوا ہے اور وہ ہے، چین کی ثالثی میں سعودی عرب، ایران معاہدہ۔عرب ممالک کی غزہ جنگ پر بہت محتاط پالیسی ہے، اِسی لیے اسماعیل ہانیہ قطر میں بیٹھ کر ایران کے حق میں بیان تو دیتے ہیں، لیکن اپنی حد پار نہیں کرتے، چاہے ہمارے جذباتی تجزیہ نگار اُن کا کچھ بھی امیج پیش کرتے رہیں۔

یہ یقیناً رئیسی صاحب کی پالیسی کا حصّہ ہوگا، کیوں کہ اُنہوں نے امریکا کو اسرائیل پر ایران کے حملے کی اطلاع بہتّر گھنٹے پہلے دے دی تھی۔دوسرے الفاظ میں، اب ایران کے لیے ایسا صدر چُننا ہوگا، جو نظریاتی ہو، انقلاب کا پابند ہو، خارجہ پالیسی کی پیچیدگیاں حل کرسکے، علاقائی معاملات دیکھ سکے، جیسے چا بہار پورٹ کا معاملہ اور سب سے بڑھ کر ایرانی معیشت ٹھیک کرسکے، کیوں کہ ایرانی عوام اسی کے منتظر ہیں۔