قیام پاکستان کے چند سال بعد ہی سے غیر جمہوری قوتیں عوام کے جمہوری حقوق کو جس طرح پامال کرتی رہی ہیں،تین بار ملک کے منتخب وزیر اعظم رہنے والے میاں نواز شریف کے ساتھ روا رکھا گیا سلوک اس کا ایک نمایاں مظہر ہے۔ اپنی جماعت کی صدارت کے منصب پرچھ سال بعد گزشتہ روز ازسرنو فائز ہونے والے نواز شریف کو اپنے تمام ادوار حکومت میں غیر جمہوری طریقوں سے اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔ ان کی وزارت عظمیٰ کا تیسرا دور 2013 کے عام انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے کے نتیجے میں شروع ہوا لیکن ایک سال بعد ان کی حکومت کو اسلام آباد میں ایک طویل دھرنے کے ذریعے ختم کرنے کوشش کی گئی جو ناکام رہی تاہم اکتوبر 2016 میں ان کے خلاف پاناما کیس شروع کیا گیا اور جولائی 2017 میں انہیں اپنے اثاثوں میں بیٹے کی فرم سے وصول نہ کی گئی تنخواہ کا ذکر نہ کرنے پر سپریم کورٹ نے تمام حکومتی مناصب اور پھر پارٹی کی صدارت کے منصب کے لیے بھی نااہل قرار دے دیا ۔ مسلم لیگ ن کی جنرل کونسل کے اجلاس سے خطاب میں نواز شریف نے اس حوالے سے کہا کہ جنرل کونسل نے مجھے ایک بار پھر صدر منتخب کر کے ثاقب نثار کا فیصلہ ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا’’ ملک کی خوشحالی صرف چار پانچ لوگوں نے چھین لی‘ بانی پی ٹی آئی نے میر ی حکومت ختم کرنے کیلئے تیسری فورس بن کر جنرل ظہیر الاسلام کا ساتھ دیا‘ مذاکرات کیلئے پہلے انہیں اس کا جواب دینا ہو گا۔‘‘نواز شریف کا یہ مؤقف یقینا وزن رکھتا ہے۔ ملک کی گاڑی کو جن لوگوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے آئین اور جمہوریت کی پٹری سے اتارا تھا ، ایسے واقعات کے دائمی سدباب کیلئے ان لوگوں کا محاسبہ اور ان کا غلطی کا اعتراف کرنا ضروری ہے۔افواج پاکستان کے ترجمان ان سب واقعات کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کرچکے ہیں‘ انتشار کا خاتمہ اس کے بغیر ممکن نہیں لہٰذا جلد ازجلد اس سمت میں عملی اقدامات کیے جانے چاہئیں۔