اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے جسٹس بابر ستار کے خلاف سوشل میڈیا مہم اور فیملی ڈیٹا لیک کرنے پر توہین عدالت کیس کی کل کی سماعت کا تحریری حکم جاری کردیا ہے۔
تحریری حکم میں کہا گیا ہے کہ فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف آئی اے) سائبر کرائم ونگ کی رپورٹ میں ٹویٹ اور ریٹویٹ کرنے والے چند اکاؤنٹس کی نشاندہی کی گئی ہے۔
تحریری حکم میں کہا گیا کہ ایف آئی اے رپورٹ سے صاف ظاہر ہے کہ معزز جج کے خلاف 3 ہیش ٹیگ پر مبنی منظم مہم تھی۔
حکم میں کہا گیا کہ ایف آئی اے حکام کے مطابق مزید اکاؤنٹس کی معلومات آئندہ سماعت پر دی جائیں گی۔
دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی جانب سے آئی ایس آئی کی رپورٹ جمع کرائی گئی، جس پر عدالت نے کہا کہ بڑی مایوسی کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آئی ایس آئی کی رپورٹ نامکمل ہے۔
تحریری حکم میں مزید کہا گیا کہ آئی ایس آئی کی رپورٹ کے پہلے 2 صفحات پر کہا گیا ہے اکاؤنٹس غیر فعال ہونے کے باعث پیشرفت نہیں ہوسکتی۔
عدالتی حکم میں یہ بھی کہا گیا کہ پی ٹی اے، آئی بی، ڈی جی امیگریشن، سی ٹی ڈی، پیمرا اور ایف بی آر کی رپورٹس عدالت میں جمع کرادی گئی ہیں۔
تحریری حکم میں کہا گیا کہ عدالت نے آئندہ سماعت پر ان تمام اداروں کے رپورٹ تیار کرنے والے ایکسپرٹس مختصر پریزنٹیشن طلب کر لی ہے۔
عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل، امیگریشن حکام نے واضح کیا کہ گرین کارڈ محض ایک سفری دستاویز ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور امیگریشن حکام نے تسلیم کر لیا ہے کے گرین کارڈ کا مطلب شہریت نہیں ہے، اس وضاحت کے بعد حکومت نے جسٹس بابر ستار کے خلاف ٹویٹس میں الزامات کے جھوٹا ہونے کا اعتراف کرلیا ہے۔