• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مہنگی بجلی پاکستان کے معاشی مسائل کی ایک بنیادی وجہ ہے۔پانی، سورج اور ہوا سے ایندھن کے کسی خرچ کے بغیر سستی بجلی بنانے کے بجائے ملک کا بیشتر انحصار مہنگے ایندھن سے تیار ہونے اور اس پر بے حساب منافع وصول کرنے والی آئی پی پیز کی تیار کردہ بجلی پر ہے۔ شہریوں کو فراہم کی جانے والی اس بجلی پر طرح طرح کے ٹیکس اور فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر وصول کی جانے والی بھاری رقوم کی وجہ سے کروڑوں پاکستانی بجلی کا بل ادا کرنے کے بعد گھر کی دیگر ضروریات پوری کرنے سے عملاً قاصر ہوتے جا رہے ہیں۔ملک کے اکثر علاقوں میں سورج سال بھر چمکتا ہے اور اس نعمت خداوندی سے استفادہ کرکے سستی بجلی کا حصول بآسانی ممکن ہے۔ وسیع و عریض ساحلی اور صحرائی علاقے جہاں کم و بیش ہروقت تیز ہوا چلتی رہتی ہے، ہوا سے بجلی بنانے کے لیے انتہائی موزوں ہیں۔عشروں سے حکومتوں کو توجہ دلائی جاتی رہی ہے کہ ان ذرائع کو استعمال کرکے سستی بجلی کی تیاری کو فروغ دیں تاکہ نہ صرف گھریلو صارفین بلکہ ملکی صنعتیں بھی کم لاگت پر پیداوار کرکے عالمی منڈیوں میں مسابقت کے لائق ہوسکیں لیکن اس سمت میں کسی منظم کوشش اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ پیش رفت اب تک نہیں ہوسکی تھی۔ تاہم اس ضمن میں یہ خبر یقینا خوش آئند ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے دنیا کی سب سے بڑی چین کی سولر کمپنی لونجی گرین انرجی ٹیکنالوجی کو پاکستان میں مینوفیکچرنگ پلانٹ لگانے کی دعوت دے دی گئی ہے۔ وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے کمپنی کے صدر سے ملاقات میں پاکستان کی سولر توانائی کی استعداد پر دی گئی بریفنگ میں بتایا کہ پاکستان تیزی سے انرجی مکس میں قابل تجدید توانائی کا تناسب بڑھا رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ چینی کمپنی کے صدر نے پاکستان میں شمسی توانائی کے فروغ کے لیے تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے اور وفاقی وزیر توانائی نے چینی کمپنی کو پاکستان میں سولر مینوفیکچرنگ پلانٹ لگانے کی باضابطہ دعوت دی ہے۔ دوسری جانب ملک بھر میں لوگوں نے اپنے طور پر مہنگی سرکاری بجلی سے نجات کے لیے سولر پینل نصب کرنے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے اور اس رجحان میں مسلسل تیزی دیکھی جارہی ہے۔ بین الاقوامی اسباب کے باعث گزشتہ کئی ماہ سے چین کے سولر پینلوں کی قیمتوں میں متواتر کمی کی وجہ سے ملک بھر میں سولر پینلوں کی فروخت اور تنصیب میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور ان کی قیمت میں مزید کمی کے امکانات واضح ہیں لیکن ذرائع ابلاغ کے مطابق وفاقی بجٹ میں سولر پینلوں پر ٹیکس لگنے کی خبروں کے پیش نظر تاجروں نے سولر پینلوں کی فروخت روک دی ہے یا قیمتوں میں اضافہ شروع کردیا ہے اور اب تک آٹھ روپے فی واٹ کی شرح سے اضافہ کیا جاچکا ہے۔منافع خوری کی یہ ذہنیت یقینا قابل مذمت ہے تاہم حکومت کو بھی کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیے جو سولر انرجی کے فروغ میں رکاوٹ بنے ۔سولر پینلوں پر ٹیکس لگانے کا فیصلہ کسی بھی طور درست نہیں ہوگا۔ اس کے بجائے سولر انرجی کی ہر ممکن حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ نیٹ میٹرنگ ختم کرنے کے حوالے سے بھی مسلسل متضاد خبریں گردش میں ہیں۔ یہ خبریں غلط ہیں تو ان کی واضح اور بھرپور تردید ضروری ہے اور اگر ایسی تجاویز کہیں زیر غور ہیں تو انہیں یکسر مسترد کردیا جانا چاہیے کیونکہ قدرتی ذرائع سے بجلی کی تیاری اور آئی پی پیز کی مہنگی بجلی سے نجات ہماری معاشی بحالی کیلئے ناگزیر ہے۔ اس کے بغیر ہماری صنعتی اور زرعی پیداوار کی لاگت میں کمی ممکن نہیں۔لہٰذا ضروری ہے کہ اس سمت میں تیزرفتار پیش رفت کی جائے۔ سورج کے علاوہ ہوا سے بجلی بنانے کے منصوبے بھی سرکاری اور نجی شعبے کے تحت عمل میں لائے جانے چاہئیں کیونکہ یہ سولر انرجی سے بھی زیادہ سستا ذریعہ ہے اور ملک کے ساحلی اور صحرائی علاقوں میں پون چکیاں نصب کرکے ہزاروں میگاواٹ مفت بجلی کی تیاری ممکن ہے۔

تازہ ترین