وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے نئے سال کا بجٹ کے پیش ہونے سے ایک دن قبل رواں مالی سال 2023-24 کے اقتصادی سروے کے اجرا پر جو پریس کانفرنس کی، اس سے یہ واضح ہوگیا کہ اب ہر شعبے کو لازمی ٹیکس دینا ہوگا۔ ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں ہے، سب کو ملک کی ترقی اور ریونیو میں اپنا حصہ ادا کرنا ہوگا۔ درست طور پر نشان دہی کی گئی کہ خیرات سے فلاحی ادارے تو چل سکتے ہیں ملک نہیں۔ ملک چلانے کیلئے ٹیکس ضروری ہے۔ اس باب میں بھی ابہام کی گنجائش نہیں رہی کہ ہمیں آئی ایم ایف پروگرام کی ضرورت تھی کیونکہ اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی ’’پلان بی‘‘ نہیں تھا۔کئی سرکاری اداروں کے مسلسل خسارہ برداشت کرنے کی صورتحال کے حوالے سے یہ دوٹوک موقف سامنے آیا کہ مذکورہ اداروں میں ایک ہزار ارب روپے کا خسارہ برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ پریس بریفنگ کی بموجب رواں سال کا جب آغاز ہوا تو جی ڈی پی 0.2فیصد پر تھی، روپے میں 29فیصد گراوٹ آچکی تھی اور زرمبادلہ کے ذخائر محض دو ہفتے کا درآمدی بل پورا کرسکتے تھے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں آئی ایم ایف کے ساتھ 9ماہ کیلئے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کا بہت اہم فیصلہ کیا گیا، اگر یہ فیصلہ نہ کیا جاتا تو آج صورتحال بہت مختلف ہوتی اور ہم آج بیٹھ کر معاشی اہداف پر بحث نہ کررہے ہوتے۔ ہمارے پاس آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا کوئی متبادل پلان نہیں تھا۔ بریفنگ میں اعتراف کیا گیا کہ رواں مالی سال بڑی صنعتوں کی پیدوار میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کی بڑی وجہ بلند شرح سود اور توانائی کے مسائل تھے۔ اب اسٹیٹ بینک کے 10جون 2024ء کے اعلان کے بموجب پالیسی ریٹ 150 بیسز پوائنٹ کم کرتے ہوئے شرح سود کو 22فیصد سے 20.5فیصد پر لایا گیا ہے تو اس کے بڑی صنعتوں پر اچھے اثرات مرتب ہونے چاہئیں اور ان کی دیگر مشکلات بھی دور کرنے پر توجہ دی جانی چاہئے۔ بریفنگ سے ایک طرف مہنگائی کی شرح میں نمایاںکمی کی نوید ملی ہے تو دوسری طرف زراعت کے شعبے میںواضح ترقی کی نشاندہی ہوئی ہے۔ ڈیری اور لائیو اسٹاک کے شعبے میں بھی نمایاں نمو ہوئی ہے۔ ایف بی آر کے ٹیکس ریونیو میں 30فیصد تک گروتھ ظاہر ہورہی ہے۔ محصولات میں اضافے کا یہ رجحان بہت اہمیت کا حامل ہے۔ پرائمری بیلنس سرپلس رہا جس میں صوبوں نے کردار ادا کیا۔ سروے کے بموجب رواں سال کے شروع میں کرنٹ اکائونٹ خسارے کا ہدف 6ارب ڈالر تھا لیکن اب 20کروڑ ڈالر پر ہے۔ ملک کئی برس سے جس شدید معاشی بحران سے دوچار نظر آتا رہا ہے، اس میں کمی کے آثار ظاہر ہورہے ہیں۔ مالی سال 2024میں طاقتور شعبوں کو فراہم کی گئی ٹیکس چھوٹ (جس کی لاگت 3900ارب روپے تک جاپہنچی تھی) ختم کرنے سے صورتحال میں بہتری آئے گی۔ ٹیکس فائلرز کی تعداد بڑھانے کے اقدامات بھی نتیجہ آور ہورہے ہیں۔ آئی ایم ایف سےاس وقت جس پروگرام پر بات چیت کی جارہی ہے۔ اس سے قرض تو ملے گا ہی ، معیشت سے تعلق رکھنے والے کئی معاملات میں ڈسپلن بڑھنے کے آثار بھی ہیں۔ ترسیلات زر میں 3.5اضافہ بھی مثبت رجحان ہے۔ اس نئی صورتحال میں تعلیم اور صحت کے شعبوں میں اس برس بالترتیب جی ڈی پی کا 1.5 اور ایک فیصد خرچ ہوا۔ اسے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ زراعت جدید خطوط پر استوار کرنے، ایگروبیسڈ صنعتوں پر توجہ دینے، چھوٹی، درمیانہ اور بڑی صنعتوں کی حوصلہ افزائی سے مواقع روزگار بڑھانے میں مدد ملے گی جبکہ انکم ٹیکس میں کمی کرکے ٹیکس بیس وسیع کرنے سے قومی خزانے میں زیادہ رقوم آنے کے امکانات بڑھیں گے۔