SMS: #NRC (space) message & send to 8001
متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے 16مارچ 2014ء کو ایم کیوایم انٹرنیشنل سیکریٹریٹ لندن میں مختلف یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبا وطالبات، لندن اور پاکستان میں رابطہ کمیٹی اور مختلف شعبوں کے ارکان کو پاکستان کی موجودہ صورت حال کے بارے میں ایک طویل لیکچر دیا۔ اس لیکچر کے اقتباسات اس کالم میں شائع کئے جا رہے ہیں۔کسی کو ان کی رائے سے اختلاف ہو تو جنگ کے صفحات حاضر ہیں۔(ادارہ)
پاکستان کے قیام کے بعد سے ہی ہمارے ارباب اختیارنے ملک کوچلانے کے لئے جوپالیسیاں تشکیل دیں، بدقسمتی سے وہ پالیسیاں اس وقت کے حالات کوسامنے رکھتے ہوئے تشکیل دی گئیں اور پالیسیاں تشکیل دیتے وقت مستقبل کو سامنے نہیں رکھاگیایعنی یہ نہیں سوچاگیاکہ ان پالیسیوں کے ملک کے مستقبل پر کیااثرات مرتب ہوں گے۔ہمارے ارباب اختیار نے وقتی اورفوری مفادات کے حصول کیلئے ہمیشہ دوسرے ممالک اور دوسری طاقتوں کے مفادمیں پالیسیاں تشکیل دیں اور ان کے مفاد کیلئے فیصلے کئے۔ آج پاکستان جس قسم کے سنگین حالات سے دوچارہے، جس قسم کے نازک موڑپر آ کھڑا ہواہے وہ ماضی کے اسی طرزعمل کانتیجہ ہے۔ اس سے زیادہ افسوسناک امرتویہ ہے کہ ہم آج بھی دوسروں کے مفادمیں فیصلے کررہے ہیں۔ہماری معاشی پالیسیوں کی تشکیل میں آج بھی یہی عنصر کار فرما ہے۔
آج بھی سننے میں خدا جانے کیا کیا آ رہا ہے،ہمارے پاس اس کے ثبوت نہیں ہیں کہ ہم وثوق کے ساتھ بات کہہ سکیں۔ بہرحال ہم سبھی سچ کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں ۔ڈالرکو 98روپے تک لانے میں حکومت کا اپنا مؤقف ہے اور بظاہر اگر اس نے فیئر پلے کے ذریعے کوئی New economic revelationsکی ہے جس کے ذریعے ڈالر ایک دم تقریباً 111سے 98 روپے پر آجائے تو یہ حکومت کیلئے ایک بڑی کامیابی ہے جس پرحکومت قابل مبارکباد ہے لیکن بعض ناقدین یہ کہتے ہیں یہ جو ڈالر 98 روپے تک آگیاہے یہ ملک شام ( Syria ) کا ڈیوڈنڈ dividend) ( ہے…اس کا ماحصل ہے… رزلٹ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سعودی عرب کے کہنے پر ملک شام کے باغیوں کو جنگی ساز وسامان مع کرائے کے فوجیوں کی فراہمی پر بخشش کے طورپرپاکستان کو ڈیڑھ بلین ڈالر دیا جارہاہے جسے آپ ڈیوڈنڈdividend) (کہیں، انعام کہیں، منافع کہیں، بخشش کہیں یااس سے ملتاجلتا کوئی بھی نام دے دیں یعنی سعودی عرب نے نواز شریف گورنمنٹ سے یہ معاہدہ کیا ہے کہ آپ ہمیں شام میں جاری صورت حال کے سلسلے میں باغیوں کیلئے اسلحہ، گاڑیاں، گولہ بارود،(ammunitions)کرائے کے فوجی اور ٹیکنیشنز دے دیجئے، اس کے بدلے آپ اس کا dividend یابخشش لے لیجئے یعنی سعودی عرب کی جانب سے کہاگیاکہ ہم آپ کو ڈیڑھ ارب ڈالر الگ سے دیں گے۔ اس ڈیڑھ ارب ڈالر میں آپ کو کوئی ایک پائی خرچ نہیں کرنی اور آپ شام کی صورت حال کے سلسلے میں جنگی حکمت عملی کیلئے جو سازوسامان لیں گے،آپ جو خرچ کریں گے وہ حساب الگ ہے۔ اسی معاہدے کے تحت پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر دیئے گئے جس کے نتیجے میں ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں اضافہ ہوا ۔
یہ بات سب کو سمجھنا چاہئے کہ ہم ماضی میں افغان جنگ میں دوسروں کے مفاد کیلئے استعمال ہونے اور پرائی جنگ میں کودنے کاخمیازہ آج کے دن تک بھگت رہے ہیں اوراس غلطی کاخراج بیش بہاقیمتی جانوں کی شکل میں آج تک ادا کررہے ہیں۔اگرہم نے ماضی کی غلطی کو دہراتے ہوئے شام میں اپنے مسلح دستے،اسلحہ اور جنگی سازوسامان بھیجنے کی غلطی کی تو ملک وقوم کوایسانقصان پہنچے گاکہ خاکم بدہن شاید پاکستان اس غلطی کاازالہ تاقیامت نہ کرسکے۔ آپ technicalities میں مت جائیں کہ کیا ہے یا کیا نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ آپ کاملک ایک ذمہ دارملک ہے یا نہیں؟ وہ کوئی قاعدے ،قانون ،اصول وضابطے ،کوئی آداب یالحاظ کے تحت چلتا ہے یانہیں؟ یامعذرت کے ساتھ کرائے کی کار بنا ہوا ہے کہ آپ بس پتہ بتایئے، اتنے پیسے ڈپازٹ کرائیے اور گاڑی کرائے پر لے جائیے؟ کیا ہماری مسلح افواج، ہمارے ملک کے محافظ ہمارے ملک کے دفاع یاتحفظ کیلئے ہیں یاہرایک کیلئے فری دستیاب ہیں کہ کوئی بھی انہیں اپنے مقصد کیلئے کرائے پرلے جائے اور ہمیں یہ جاننے کی بھی ضرورت نہیں ہے کہ کون ہمیں کس مقصد کیلئے کرائے پرلے رہا ہے ؟ کیا ہم صرف دوسروں کے مقاصد اور ضروریات پوری کرنے کیلئے رہ گئے ہیں خواہ وہ مقاصد ہمیں پسند ہوں یانہ ہوں؟ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جس ملک کی افواج کرائے کی فوج بن جائے، جس ملک کے حکمراں صرف دوسروں کے مفاد کیلئے کام کرنیوالے بن جائیں تو ایسی قوموں کا رہاسہا تھوڑا بہت کیریکٹر بھی ختم ہو جاتا ہے اوروہاں کی صورت حال آج کے صومالیہ سے بھی بدتر ہوجاتی ہے ۔ آپ لفاظی کرکے اپنے چند سیاسی مخالفین پر الزام دھر دیتے ہیں،حقیقت یہ ہے کہ جتنے بڑے وہ گناہگار ہیں اس سے بڑے گناہ گار آپ ہیں کیونکہ وہ اپنی ذاتوں کیلئے ملک میں ڈاکے مار رہے ہیں اور آپ اپنے ہی ملک میں دوسرے ممالک کو ڈکیتی مارنے کی اجازت دے رہے ہیں۔
بدقسمتی سے ہم نے قیام پاکستان کے بعد سے ہی پروکسی وار کے لئے لشکر یا جتھے بنانے کی پالیسی اختیارکی۔ہم نے یہ نہیں سوچاکہ ایک دفعہ آپ 100افراد کا گروپ بنا کر کسی کے خلاف کچھ عرصے تک تو ضرور استعمال کر سکتے ہیں بعد میں وہی گروپ اپنے بنانے والوں کیلئے مونسٹرز کا روپ دھار لیتا ہے۔ اسی وجہ سے دنیا میں کسی ملک کی حفاظت کیلئے باقاعدہ فوج کی تشکیل کی بنیادیں رکھی گئیں جن کا جینا مرنا کھانا پینا ، کام کاج ، مقصد حیات ہی یہی ہے کہ وہ ملک کے داخلی و بیرونی معاملات کی حفاظت کریں گے۔ ان کو ریٹائرمنٹ کے بعد اس کی پینشن بھی ملے گی۔ دوسری جانب اگرآپ 100آدمیوں کا گروپ بنالیں اور ایک سال ، 5سال یا 10سال استعمال کرنے کے بعد ان کی عمروں میں اضافہ ہوگا، ان میں سے کچھ کی شادیاں ہو جائیں گی، بچے ہوجائیں گے، ان کے خرچے ہوں گے۔ جب آپ ان سے کہیں گے کہ بس آپ کا کام ختم ہوگیا، اب آپ اپنا اپنا کام کاج کریں تو چونکہ ان کی عمریں بڑھ چکی ہوں گی اور وہ کوئی کام کاج کرنے کے قابل نہیں ہوں گے تو پھر ان میں سے ہر آدمی آپس میں یا تو مل کر یا اپنا اپنا گروپ بنانا شروع کر کے اپنی اپنی کرائے کی فوج(mercenary) بنا لے گا۔ ابتداء جس نام سے ہوتی ہے کہ ہم اس کی وفاداری کیلئے اپنی جان کی قسم کھا رہے ہیں کہ ہم فلاں اسپیشل مشن پر جائیں گے تو پانچ سال میں ان کے رہنے سہنے کا اسٹائل عام لوگوں سے بالکل علیحدہ ہو جائے گا جب آپ ان کو عام زندگی میں چھوڑیں گے تو پھر واپس پلٹ کرعام آدمی کی زندگی گزارنا ان کے بس کی بات نہیں رہے گی ۔
عجب مذاق ہے کہ ہم سے اپنا ملک سنبھالا نہیں جا رہااور ہم دوسروں کے ہاں مداخلت کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ ہمیں اپنے ملک کے جنگجوئوں سے نمٹنے کا سلیقہ، ہنر اور حکمت نظر نہیں آرہی ہے، ہم کبھی طالبان کے خلاف آپریشن کی بات کرتے ہیں تو کبھی ان سے مذاکرات کی بات کرتے ہیں۔ہم جتھے یالشکر بناتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ جب ان کااستعمال ختم ہوجائے گا یعنی جس مقصد کے لئے وہ بنائے گئے ہوں وہ مقصدحاصل ہوجائے گا تواس کے بعد ان جتھوں کا مستقبل کیاہوگا؟ ان سے بات چیت اورروابط کاطریقہ کار کیارہے گا؟ اورانہیں یکسرچھوڑ دینے کے بعد جب وہ سرکشی پراترآئیں گے تو ان سے نمٹنے کاطریقہ کار کیاہوگا؟ اگر آپ کو کسی موقع پر ان جتھوں سے بات چیت بھی کرنی پڑے تو کس سے کریں گے؟ پھر آپ کہیں گے کہ فلاں گروپ زیادہ طاقتور ہے اس سے کر لیں،جیساکہ آج آپ نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (TTP) سے مذاکرات شروع کر دیئے ہیں لیکن ٹی ٹی پی نے ایک طرف تو جنگ بندی کااعلان کیا اوردوسری جانب اپنی دہشت گردی کی کارروائیاں بھی جاری رکھی ہیں۔ جنگ بندی کے اعلان کے فوراً بعد سے آج کے دن تک تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے خودکش حملے ،بم دھماکے ،لوگوں کے اغوا اور دہشت گردی کی کارروائیاں جاری ہیں ۔
حتیٰ کہ انہوں نے اسلام آباد میں عدالت تک کو دہشت گردی کانشانہ بنایا اور جج اور وکلاء تک کو شہید کر دیا۔ تحریک طالبان پاکستان نے کارروائیاں بھی کیں اور چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گردی کی ان کارروائیوں سے لاتعلقی کااعلان بھی کردیا اور کہہ دیاکہ ہماراکوئی گروپ ان میں ملوث نہیں۔اس دوران ’’احرارالہند‘‘ نامی گروپ سامنے آگیاہے جودہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داریاں قبول کر رہا ہے۔ آخریہ احرار الہند کیا ہے؟ ہر آدمی کہہ رہا ہے کہ ہم نے احرارالہند کانام پہلی دفعہ سنا ہے ۔حتیٰ کہ بزرگ رہنما مولانا سمیع الحق کایہ بیان بھی ریکارڈ پر موجود ہے جس میں انہوں نے یہ انکشاف کیاہے کہ انہوں نے احرارالہند کا نام پہلی دفعہ سنا ہے اورمذاکرات کیلئے حکومت اورتحریک طالبان پاکستان کی تشکیل کردہ مذاکراتی ٹیموں کے ارکان نے بھی احرارالہند نامی تنظیم کے سامنے آنے پر حیرت وتعجب کا اظہار کیا ہے۔ جب ہرکوئی اس تنظیم کے وجود سے لاعلمی کااظہارکررہاہے توپھر یہ گروپ اچانک کہاں سے نکل کرآگیاہے؟ ایک طرف سیزفائر ہو چکا ہے مگردھماکے اسی طریقے سے جاری ہیں جس طریقے سے تحریک طالبان پاکستان والے سالہا سال سے کرتے رہے ہیں۔ یہ اس بات کاثبوت ہے کہ ایک بارجب آپ نے پروکسیز کوجنم دے دیا تو پھر آپ کا ان سے نمٹنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن نظر آتا ہے۔ چونکہ آپ نے سمجھا کہ سب سے بڑے تحریک طالبان پاکستان والے ہیں ان سے مذاکرات کرلوتو امن ہو جائے گا لیکن تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کے باوجود امن کہاں ہوا؟ دہشت گردی کی کارروائیاں کیوں بدستور جاری ہیں؟ اب تو صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ ایم کیوایم کے سوا کوئی بھی ان دھماکوں کی مذمت نہیں کرتا اور یہ جواز پیش کیاجاتاہے کہ کچھ کہنے سے مذاکرات میں خلل پڑے گا۔اگر تحریک طالبان پاکستان واقعی اتنی بڑی طاقتور آرگنائزیشن ہے کہ اس کے اشارے پر سارے طالبان کام کررہے تھے تو بات سمجھ میں آتی تھی کہ آپ نے قیام امن کیلئے ان سے مذاکرات کر لئے کہ اس سے دہشت گردی بند ہو جائے گی لیکن جب طالبان سے مذاکرات کے باوجود دہشت گردی کاسلسلہ بند نہیں ہو رہاتو اس کا مطلب ہے کہ طالبان سے بھی زیادہ طاقتور گروپ موجود ہیں اور جب دہشت گردی کرنے والے طالبان سے مذاکرات ہی کی پالیسی اختیار کی گئی ہے تو پھر پہلے ان طاقتور گروپوں سے مذاکرات کرلیں جو مذاکرات کاعمل شروع ہونے کے باوجود دہشت گردی کررہے ہیں اورکسی کے قابومیں نہیں آرہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ سلسلہ آخرکہاں جاکررکے گا؟آپ کہاں کہاں جا کراور کس کس سے مذاکرات کریں گے؟ میں ہمیشہ سے کہہ رہا ہوں کہ اس مسئلے کا جتنی جلدی حل نکال لیں گے اتنا کم نقصان ہوگا مگرجتنی تاخیرکریں گے اتنا ہی زیادہ نقصان ہوگااوروقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اتنے زیادہ طالبان کے گروپ وجود میں آتے جائیں گے اور ان کی تعداد بڑھتی جائے گی اور اس طرح روز محشر تک یہ مذاکرات ہوتے ہی رہیں گے ۔
اب جومصنوعی طریقے سے ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر 98روپے تک لائی گئی ہے اس کا وبال بھی پاکستان پر آئے گا۔ وزیرخزانہ صاحب فرماتے ہیں کہ جو اس کڑے اور برے وقت میں ملک کی مدد کر رہے ہیں ان کا نام نہ لیں … چھوڑیں چھوڑیں ۔ لوگوں کومعلوم ہی نہیں کہ ڈالر111روپے سے98روپے پرکیسے آگیا۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں بہت سی انویسٹمنٹ کمپنیاں بنی تھیں ۔ کراچی میں الائنس موٹرز کے نام سے ایک انویسٹمنٹ کمپنی بنی تھی، انہوں نے اپنارکھ رکھاؤ ایسا اسلامی بناکرپیش کیاکہ اس ادارے میں پینٹ پہن کرکسی بھی فرد کوکام کرنے کی اجازت نہیں تھی ۔اس ادارے کی جانب سے لوگوں کو ایک لاکھ پر تین ہزار روپے کامنافع دینے کااعلان کیاگیا۔ لوگوں نے اس سے متاثرہوکراس میں دھڑادھڑرقم جمع کرانا شروع کر دی، کسی نے دس لاکھ، کسی نے پندرہ لاکھ جمع کرائے، کسی نے اپنی گریجویٹی کی تمام رقم جمع کرائی،کسی نے اپنی پوری زندگی کی جمع پونجی لگا دی ۔اس وقت لوگوں کوسمجھایاگیا کہ آپ رقم نہ لگائیں لیکن لوگوں نے نہ مانا۔ قرآن مجید شائع کرنے والی ملک کی مشہورتاج کمپنی نے بھی ایک انویسٹمنٹ پر منافع دینے کااعلان کیا۔ سادہ لوح لوگوں نے سمجھااس کمپنی میں تو قرآن مجیدچھپتے ہیں، وہ کمپنی عوام کے ساتھ دھوکہ دہی کا کاروبار کس طرح کرسکتی ہے۔ اب ان سادہ لوگوں کوکون سمجھاتا۔ کسی نے کہاالائنس موٹرز والے تہجد گزار ہیں … دینی آدمی ہیں …اللہ رسولؐ والے ہیں…یہ منافع پر سود بھی نہیں لیتے ۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ، بینکرز ، بینکنگ کے ماہرین یعنی جو سارے کاروباری طور طریقے جانتے ہیں کہ کس بینک میں رقم رکھو… کیسے رکھو… کہاں کتنا فائدہ ہوگا…کیسے ہوگا وہ بھی لالچ میں پاگل ہوگئے۔ چنانچہ بینکرز نے بھی یہ جانتے بوجھتے کہ دنیا میں اس وقت سرمایہ کاری پر منافع کی شرح عام طور پر زیادہ سے زیادہ کتنی ہے، انہوں نے بھی اپنی رقوم ان سرمایہ کارکمپنیوں میں لگادی ۔سچ ہے کہ لالچ بری بلا ہے، لالچ کاشکار لوگوں کے ساتھ اتنابڑا فراڈ ہوا کہ اس سے پہلے ملک میں ایسا فراڈ نہیں ہوا تھا۔ یہ اربوں کھربوں کا گھپلا کرنے والے لوگ آج بھی اس دنیامیں موجود ہیں اور ہزاروں لوگ اس فراڈ کی وجہ سے اپنی زندگی بھرکی جمع پونجی سے محروم ہو گئے، ان میں سے بہت سے لوگ اپناسب کچھ گنواکردنیاسے چلے گئے۔ اس میں یہ سبق ہے کہ لوگوں کوکس کس طرح دھوکہ دیاجاتا ہے۔
کہتے ہیں کہ عدلیہ کا احترام کرو،بالکل بجا… عدلیہ قابل احترام ہے اورعدلیہ کااحترام سب کوکرناچاہئے لیکن کونسی عدلیہ کا؟…وہ جوسب کے ساتھ یکساں انصاف کرے اور یہ نہ کرے کہ دو ڈاکوؤں میں سے ایک ڈاکو کو تو سزا دے دی جائے اور دوسرے ڈاکو کو ثبوت وشواہد کے باوجود رہاکردیاجائے یعنی معاف کردیاجائے؟ جس عدلیہ میں انصاف کے پیمانے مختلف ہوں؟…جسے ایک گروپ کے لوگ ہی قصوروار اور مجرم نظر آئیں اوراپنی پسندکے گروپ کے لوگ قابل معافی قرارپائیں اورجسے ملکی دولت لوٹنے والے بڑے بڑے لٹیرے نظرہی نہ آتے ہوں؟…کیا معافی کے حقدار قراردیئے جانے والے بڑے بڑے ڈاکو کوئی ایسی سلیمانی ٹوپی پہنے ہوئے ہوتے ہیں کہ ان کاثبوت وشواہد کے ساتھ بڑے سے بڑا جرم قابل معافی بن جاتاہے؟ ملک آج تباہی کے جس دہانے پر کھڑاہے کیاوہ ایک ہی دن یاایک ہی سال میں اس مقام تک پہنچاہے؟…پاکستان جس طرح چل رہاہے…جس طرح چلایاجارہاہے کیا اسے اسی طرح چلاتے رہناہے؟…کیاحب الوطنی اسی کانام ہے کہ ملک کو مختلف ناموں اورکاموں سے لوٹ لوٹ کر اپنی ذات اوراپنے خاندان کے لئے ملک اور بیرون ملک جاگیریں اورجائیدادیں بنائی جائیں؟…ملک کوکنگال اوراپنے آپ کو مالامال کیاجائے؟
بات اگرچہ سخت اورتلخ ہے مگرسچی ہے اورسچی بات ہمیشہ تلخ ہوتی ہے …پاکستان کے بگڑے ہوئے نظام کودرست کرنے کیلئے کسی ایسے شخص کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور ہونی چاہئے جو بہت ہی سخت ہو…جس کے پاس کسی غلط، بے ایمان اورکرپٹ فرد کیلئے کوئی گنجائش، کوئی معافی نہ ہو …جو اس معاملے میں بے رحم مگر منصف المزاج ہو…جو نیچے سے اوپرتک کرپٹ لوگوں کا بے رحمانہ احتساب کرے…کسی کیلئے کوئی رعایت نہ ہوخواہ وہ کتناہی بڑا اور بااثرکیوں نہ ہو۔ جب تک کرپٹ لوگوں کانچلی سطح سے اعلیٰ سطح تک بے رحمانہ احتساب نہیں ہوگااس وقت تک ملک کانظام درست نہیں ہو گا۔ ہمارے ملک میں نام تو جمہوریت کا لیا جاتا ہے لیکن عمل اس کے برعکس کیا جاتا ہے۔ اگرآپ یہ سمجھتے ہیں کہ چور، اُچکے ، ڈاکو، لٹیرے اور ملک کے خزانے کو بغیر ڈکار لئے ہضم کرنے والے ملک کا نظام صحیح کریں گے تو یہ سراسر غلط فہمی اور اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہے۔ ملک کو درست وہی لوگ کرسکتے ہیں جوملک کو لوٹنے والے نہ ہوں ۔ پاکستان کانظام درست کرناہے توقومی دولت لوٹنے والوں کوزیادہ سے زیادہ تین سے چھ مہینے کا وقت دیاجائے کہ وہ اپنے منصب کی مدت کے آغازسے آخر تک کاحساب کتاب ایمانداری سے جمع کرائیں اوراس میں ذرا سی بھی ہیر پھیر نہ کریں تودودھ کادودھ اورپانی کاپانی ہوجائے گا۔ اسی حساب سے ان کی سزا کا تعین درجہ بدرجہ وقتاً فوقتاً ہوتا رہے تاوقتیکہ ان جرائم کے حساب سے انہیں اس کی سزا نہ مل جائے ۔جب ہرایک کواس کے جرم کی سزا ملتی رہے گی اورکسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی جائے گی تو پھر آپ دیکھ لیں گے کہ نہ تو کوئی ڈاکہ ڈالے گا … نہ قتل کرے گا …اورنہ ہی چوری کرے گا۔ اس کے بعد پھر لوگوں کی ذہنی و سماجی طور پر تربیت دی جائے…ان کو اچھا شہری بننے کی تعلیم دی جائے… جب عوام کی اکثریت باشعور اور اچھے برے کی تمیز کرنے کے قابل ہو جائے تو پھر اسی حساب سے قواعدوضوابط میں نرمی کی جائے … اسی طرح جمہوری معاشرہ پروان چڑھے گا اور زندگی کاپہیہ خوشیوں کے ساتھ چلتا رہے گا۔
پاکستان کو لاحق کرپشن کے کینسرکا خاتمہ کرناہے…کرپشن کی اس پرانی بیماری کا علاج کرنا ہے تو اس کڑوی گولی کو نگلنا ہوگا … یہ ہماری قومی اور اجتماعی بیماری ہے کہ ہم سچ نہیں بولتے…ہم اپنے اپنے مفاد کی خاطر صرف جھوٹ کے سہارے زندہ رہنا چاہتے ہیں…ہم دلدل میں بھی رہتے ہیں اور اپنا دامن بھی پاک صاف ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں…ہم اپنی جانوں کو بچانے کیلئے مصلحت پسندی کا لبادہ اوڑھے رہتے ہیں…سچ بولتے ہوئے ڈرتے ہیں اور اس طرح اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ریت میں منہ دینے سے خطرہ نہیں ٹلتا لہٰذا اگر ہم ملک کی حالت ،اپنی اجتماعی قسمت اور اپنے قومی تشخص اور کردار کو بدلنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے قومی ضمیر کے گرد جھوٹ کے اجتماعی حصار سے خود کو آزاد کرنا ہوگا …سچائی کو بیان کرنا ہوگا …سچ کتنا ہی کڑوا کیوں نہ ہو اس کو دوائی سمجھ کر پینا ہو گا کہ اس کے بغیرنہ تومرض کاخاتمہ ہوگااورنہ ہی مریض بچ سکے گا۔خدا ہمیں سچ بولنے اوراپنا انفرادی اوراجتماعی احتساب کرنے کی توفیق دے۔ آمین