ترقی و منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر احسن اقبال نے پریس کانفرنس میں اس بات کا اظہار کیا ہے کہ ایک مخالف سیاسی جماعت کی طرف سے یہ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ چین نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کی سطح نیچے کر دی ہے۔احسن اقبال کے بقول یہ طرز عمل جمہوری ہے نہ تعمیری، بلکہ ریاستی مفادات سے کھیلنے کے مترادف ہے اور قوم اس کی اجازت دے گی اور نہ حکومت۔دوسری جانب ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے خبردار کیا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے حوالے سے بھارت عالمی برادری کو گمراہ نہ کرے اور مسئلہ کشمیر سے متعلق پاک چین مشترکہ بیان پر اسے اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں۔ جموں و کشمیر ایک بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ ہے جو 7 دہائیوں سے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر ہے۔ پاک چین لازوال دوستی اور اس کے تحت سی پیک جیسے عظیم الشان منصوبے اور مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر دونوں ممالک کے ایک جیسے مؤقف پر اٹھائی جانے والی انگلی ناقابلِ قبول ہے۔ قیامِ پاکستان کے دوسال بعد ماؤزے تنگ کی شاندار قیادت میں چین کی آزادی کے ساتھ ہی پاک چین دوستی کا کبھی نہ ختم ہونے والا سفر شروع ہوا، جس کے پیچھے پاکستان کا بے چون و چرا چین کی آزادی تسلیم کرنا تھا۔ 1962ء میں بھارت اور چین کے سرحدی تنازع کا آغاز ہوا اور دونوں کی فوجیں ایک دوسرے کے سامنے آ کھڑی ہوئیں۔ پاکستان نے اس موقع پرچین کا بھرپور ساتھ دیا، جس کی وجہ سے چین کی نظر میں پاکستان کا وقار بلند ہوا اور دونوں ملکوں کے تعلقات مضبوط رشتوں میں بندھنا شروع ہو گئے۔ 1965ء میں پاک بھارت جنگ کے موقع پر چین نے پاکستان کا ہر طرح سے ساتھ دیتے ہوئے سچی دوستی کا حق نبھایا۔ 1971ء میں مشکل مرحلے پر چین نے ایک بار پھر پاکستان سے اپنی بے لوث دوستی کا ثبوت دیا جس کی وجہ سے دونوں ممالک ایک دوسرے کے اور قریب آ گئے، آج تک ملک میں کئی حکومتیں آچکی ہیں۔سیاسی اختلافات اور محاذ آرائیوں میں بارہا ایک دوسرے کو نیچا دکھایا گیا۔ترقیاتی منصوبے بھی رول بیک ہوئے تاہم 75 برسوں میں ہر حکومت، سیاستدان اور عوام نے ہمیشہ ایک زبان میں لازوال پاک چین دوستی کو ہمالیہ سے اونچا کہا۔ 2013ء میں دونوں ممالک نے خطے کی ترقی کے تاریخی سی پیک مشترکہ منصوبے کا آغاز کیا، جس میں توانائی، سینڈک، گوادر پورٹ، کراچی تا پشاور ریلوے ڈبل ٹریک اور ملک کے طول و عرض کو سڑکوں کے جال میں پرونا اس کے خدوخال میں شامل تھا۔ اس منصوبے کا پہلا مرحلہ 2020ء، درمیانی 2025ء جبکہ تیسرا اور آخری مرحلہ 2030ء میں مکمل کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا۔ ان میں سے اب تک 19 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری والے 27 منصوبے مکمل ہو چکے ہیں۔ 35 ارب ڈالرز کے حامل 63 منصوبے ابھی باقی ہیں۔ گزشتہ 6 برس میں سی پیک منصوبہ بڑی حد تک رک جانے یا سست روی کا شکار ہونے کا تاثر ابھرا، جبکہ 2025ء اصولی طور پر دوسرے مرحلے کی تکمیل کا سال ہے۔ اس ضمن میں وزیرِ اعظم شہباز شریف کا اپنی ٹیم کے ہمراہ حالیہ کامیاب دورۂ چین انتہائی اہمیت کا حامل ہے، جس کی روشنی میں دونوں حکومتوں کی کوشش ہے کہ گزشتہ 6 برس کے دوران ہونے والا نقصان حتی الوسع پورا کیا جائے۔ زرعی و صنعتی انقلاب، تجارتی روابط میں اضافہ اور مواصلات میں انقلابی ترقی بہر صورت تیزی سے بگڑتی اقتصادی صورتِحال کے تناظر میں ناگزیر ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو پاک چین دوستی کا کبھی ختم نہ ہونے والا سفر جاری و ساری رکھنے کیلئے ہر طرح کے اختلافات ناصرف بالائے طاق رکھنے چاہئیں بلکہ اسے قومی کاز جانتے ہوئے باہمی تعاون کو فروغ دینا چاہیے۔