30 مئی کو حیدرآباد کے علاقے پریٹ آباد میں ہونے والا سلنڈر دھماکا 27 زندگیاں نگل گیا تھا، جس میں 19 بچے بھی شامل تھے۔
اتنے بڑے سانحے کے بعد بھی آبادیوں کے درمیان ایل پی جی سلنڈرز کی غیر محفوظ فلنگ کا دھندا جاری ہے، سانحہ پریٹ آباد کتنے بڑے انسانی المیے اپنے پیچھے چھوڑ گیا ہے؟
30 مئی کو حیدرآباد کے علاقے پریٹ اباد میں گیس سلنڈر پھٹنے کا واقعہ جاں بحق اور زخمیوں کے ورثاء کیلئے کسی قیامت صغریٰ سےکم نہیں تھا۔
افسوسناک واقعہ میں اب تک 27 افراد جان کی بازی ہارچکے ہیں جن میں 19 معصوم بچے بھی شامل ہیں، جن میں 2 سال سے 14 سال کے لڑکے لڑکیاں بھی شامل تھیں۔
سانحہ میں کئی، ماؤں کی گودیں اور کئی خاندان اجڑ گئے، بچے یتیم اور خواتین اپنے لخت جگر سے محروم ہوگئیں، گھروں کے سائبان دنیا سے رخصت ہوگئے۔
متاثرین میں 40 سالہ ذیشان بھی شامل ہے جس کے تین لخت جگر اس کی آنکھوں کے سامنے دنیا سے رخصت ہوگئے، جبکہ 35 سالہ رئیس قریشی اور اس کے 4 سالہ بیٹے اذان کو بھی اگ کےشعلوں نے نگل لیا، اب والدین ہوں یا پھر دادا دادی صرف بچوں کی یاد کرکے آبدیدہ ہو جاتے ہیں، ہر گھر کی اپنی الگ کہانی ہے، لیکن دکھ سب کے سانجھے ہیں۔
متاثرین کا کہنا ہے کہ اس المیہ پر محض امداد ہی سب کچھ نہیں ہے ریاست ماں جیسی ہوتی ہے لیکن وفاقی حکومت ہو یا صوبائی حکومت مدد تو درکنار زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے تعزیت کرنا تک گوارا نہیں کیا گیا، لواحقین کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔