• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آنکھ کھلی تو نظر بادلوں میں تیرتے جہاز سے نیچے تک گئی، دائیں طرف سمندر کا بڑا سا جال بچھا نظر آیا، آنکھ پھر لگ گئی، اب کے آنکھ ننھے ننھے ہچکولوں اور جہاز کی بدلتی آواز کے سبب کُھلی تو فوری احساس ہوا لینڈنگ کا عمل جاری ہے۔ پھر دائیں گردن گھمائی تو ایک نیا نیا اور اجلا اجلا سا ایئرپورٹ ،بڑے درختوں کی ٹہنیوں سے لگا کہ سہ پہر کی ہوا اور یہ کسی اور ایکوسسٹم سے آئےسرسبز و شاداب پودوں اور پھولوں والی پرکشش ٹہنیوں کے مابین ایک دوسرے کو سمجھنے اور جاننے کے مذاکرات چل رہے ہیں، ڈائیلاگ کے بعد فیصلہ ہوا ہو جیسے کہ اب مل کر ماحول معطر اور فضاؤں کو مسحور کرنا ہے کہ گلشن کا کاروبار چلے! اس شہر میں قدم رکھا تو فوری خیال آیا کہ کیا اس شہر کی تعلیم و تربیت سے میرے وطن کو معاشی و معاشرتی ترقی کے علاوہ خالص جمہوریت اور حقیقی انصاف بھی میسر ہو گا؟

خیر، اچانک ایک بڑا کتاب نما بورڈ دکھائی دیا جس پر کندہ تھا کہ شہر تعلیم میں خوش آمدید، اس بورڈ پر اردو انگریزی، فارسی، عربی، فرینچ، ڈچ، کورین اور چائنیز زبانیں بھی عیاں ہوتیں، گویا یہ ڈیجیٹل بورڈ از خود لینگویجز کی کہکشاں تھا، تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد مختلف اداروں اور عمارتوں کی دیدہ زیب تصاویر ابھرتیں۔

اس ننھے مگر جدید ترین ائیرپورٹ سے سڑک کنارے بیلٹ کی طرح خود ہی چلتے فٹ پاتھ کے ذریعے باہر نکلے تو ایک اسمارٹ بس نے اپنے دامن میں جگہ دی یوں شاہراہ تحقیق پر تقریباً 15 منٹ کے سفر میں دائیں اور بائیں کم و بیش پندرہ بیس قسم کے آرکیٹیکچرل اسٹائلز بلڈنگ بلاکس نظر آئے... کلاسیکل، اسلامک، وکٹورین، نیو کلاسیکل اور رینائسینس کے علاوہ کچھ انڈسٹریل آرکیٹیکچر کی عمارتیں تھیں، ہر ایک بلاک کا اپنا ایک رنگ تھا۔ اسی طرح ماڈرن اور پوسٹ ماڈرن آرکیٹیکچر نمونے بھی ملے، زیادہ تر بلاکس زیر تعمیر تھے، پھر بروٹالسٹ، بَوہاس (جرمن رنگ) اور کنٹیپوریری آرکیٹیکچر (تھری ڈی لُک) اسٹائل بھی نمایاں تھا، تھوڑے تھوڑے فاصلے ہر بلڈنگ پر کوئی نہ کوئی آویزاں ڈیجیٹل بورڈ یہ پتہ دیتا کہ کچھ انٹرنیشنل سیٹلائٹ کیمپسز، کچھ ریسرچ سنٹرز کے ریجنل آفس ہیں اور برلب سڑک کئی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے کنسلٹنٹس کے دفاتر ہیں۔ فرنٹ لائن بلڈنگز کے پیچھے اسمارٹ ہومز طرز کی رہائشی عمارتیں تھیں، جہاں سڑک سے رہائش گاہوں تک جانے والی اسٹریٹس کے نام نیوٹن، مینڈل، ہارڈی وائن برگ، جان ڈیوی، اے کیو خان، عبدالسلام، ارسطو، آئن سٹائن، واٹسن اینڈ کرِک سمیت متعدد فلاسفرز اور سائنسدانوں کے نام پر تھے۔علاوہ بریں گریک، اٹالینیٹ اور ٹُوڈار آرکیٹیکچر (برٹش پرچھائیاں) والے علاقے میں چلتے چلتے روبوٹس ہی نہیں کوبوٹس بھی نظر آئے جنہیں دیکھ کر ایک دم خیال آیا کہ ففتھ انڈسٹریل ریولیوشن کے بعد چھٹے صنعتی انقلاب پر کام جاری ہو جیسے۔ پندرہ بیس منٹ کی انکشافی و دریافتی و نمائشی مسافت کے بعد وین شاہراہِ تحقیق کے دائیں جانب کالونیل اور کیپ کوڈ (آرکیٹیکچرز) طرز تعمیر کے عین وسط میں رکی، جس بلڈنگ میں گئے تو اس کے ارد گرد کا طرز تعمیر آرٹس اینڈ کرافٹس آرکیٹیکچرل حُسن کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ دراصل یہ اروڑ یونیورسٹی آف آرٹ، آرکیٹیکچر، ڈیزائن اور ہیریٹیج کے لائزن آفس کے عقب میں اِسی کا گیسٹ ہاؤس تھا جسے شیخ ایاز بلاک کا نام دیا گیا تھا۔ خیال ماضی میں چلا گیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کبھی یورپ کے باہر، اور ایشیا میں پہلی دفعہ اوپن یونیورسٹی لائے تھے، کبھی جوہری توانائی کی بنیاد بھی بھٹو نے رکھی، وہ انٹرنیشنلائزیشن جس کا آغاز بھٹو نے سعودیہ اور چائنہ سے کیا آج بھی وہی ڈپلومیسی پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ لینڈز، لیبر، انڈسٹریل اینڈ کارپوریٹ ریفارمز کے علاوہ بینکنگ، اکنامک، زرعی، لاء، ایکسچینج، ہیلتھ حتیٰ کہ ایجوکیشن ریفارمز بھی بھٹو لائے۔ کریڈٹ گارنٹی اسکیم، لائف انشورنس نیشنلائزڈ، پالیسی ہولڈرز مفادات، فارماکوپیا کی اشاعت، رورل ڈیویلپمنٹ پروگرام، ریولیوشن آف سروسز، انتظامی ٹربیونلز، نیشنل وولنٹئر ڈویلپمنٹ پروگرام، پیپلز ورکس پروگرام اور پولیس مین کی نئی لُک بھی ذوالفقار علی بھٹو ہی سامنے لائے۔ یہ سب باتیں میری اس بات کو تقویت بخش رہی تھیں کہ اس دھرتی پر پھر کچھ بڑا ہونے والا ہے کہ تاریخِ پاکستان میں اس نسبت سے ہمیشہ کچھ بڑا ہوا۔

مینار پاکستان کے نام سے منسوب بڑا انرجی ٹائون، خیبر آئی ٹی ٹاور، سندھ ریسرچ ہیلتھ کمپلیکس، پنجاب سوفٹ وئیر ٹیکنالوجی پارک، بلوچستان ایگری ریفارمز سنٹر جیسے پیراڈائم شفٹ پروجیکٹ دیکھ کر مجھے لگا یہ دس ہزار ایکڑ زمین تھوڑی ہوگی۔ دس انٹرنیشنل یونیورسٹیز کے سیٹلائٹ کیمپسز، اسکول آف ایکسیلنس، لمز، آئی بی اے، کامسٹ، نَسٹ، فاسٹ، گمبٹ اور ایچ ای جے کے ریجنل کیمپسز بھی تو نظر آرہے ہیں۔ جتنا بڑا بوٹنیکل گارڈن ہے، پھر فارسٹ اور ایگری کے ریسرچ سینٹرز کو بھی تو جگہ چاہئے! پالیسی اسٹڈیز سنٹر، لینگویجز سنٹر، ایشین اکانومی ریسرچ سینٹر، بائیو ٹیکنالوجی انسٹیٹیوٹ اور جنرل ٹیکنالوجیز کے سنگ الگ ٹیکنیشنز سکلز سکول وہ پراجیکٹس ہیں جو پھیلتے جائیں گے، مزید بین الاقوامی ادارے جگہیں مانگیں تو کہاں سے دیں گے؟

گیسٹ ہاؤس سے نکلے اور گھومتے گھومتے شام ہو گئی زیادہ دیر مصنوعی بارشوں اور میڈیسنل پلانٹس کے ریسرچ پراجیکٹس کو سمجھنے میں لگی، سولر آٹو موٹِو اور ریسرچ سنٹر پر بھی خاصا وقت لگ گیا۔ سارا شہر ہی انٹرنیشنلائزیشن کا رنگ برنگا میلہ تھا۔ امریکی، برطانوی، آسٹریلوی اور چینی یونیورسٹیوں کے سیٹلائٹ کیمپسز، ریسرچ سنٹرز اور لائزن آفسز کے باسیوں کو شہر میں مطمئن دیکھا۔ اس شہر میں کوئی پوسٹ ٹرُتھ سی قباحتیں ملیں نہ گیس لائٹنگ کی آلودگی کا غبار۔ ایک اطمینان تھا اور دوسری جدوجہد، سوشل اسٹڈیز اور لینگویجز کے ماہرین اور اسکالر جدید صنعتی انقلاب والوں کے برابر شاداں و فرحاں دیکھے، ملٹی ڈسپلنز، ٹرانزیشن اور انٹر ڈسپلنز کو پر اعتماد پایا کہ اکنامکس والے فنانس، اکاؤنٹنگ گویا کامرس کے فیلڈز میں پی ایچ ڈیز کر رہے ہیں کوئی پروانہیں آپ ایگری کے ہیں اور مائیکالوجی میں اعلیٰ تعلیم کیوں؟ بیالوجیکل سائنسز والوں کو الائیڈ ہیلتھ و فارماسیوٹیکل سائنسز والوں کے ساتھ ریسرچ اور اعلیٰ تعلیم میں شیرو شکر دیکھا، کمال ہائبرڈ / بلینڈڈ طریقہ ہائے تدریس پائے!

شام کی ایک تقریب میں ہمیں اجرک عنایت کی گئی۔ سندھی اپنے مہمان سے پیار ہی نہیں کرتے اسے سجاتے بھی ہیں۔ اور آنکھ کھل گئی....اوہ ! یہ تو خواب تھا۔ مگر ایک دن شرمندہ تعبیر ہو نے والا خواب۔ بھٹو ایجوکیشن سٹی کا خواب!

تازہ ترین