• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جارج برنارڈ شا نے کہا تھا ’’جمہوریت ایک ایسا عمل ہے جس کے تحت ہمیں ویسے ہی حکمران ملتے ہیں جس کے ہم لائق ہوتے ہیں۔ لہٰذا اگر تبدیلی لانی ہے تو اس کا آغاز عوام سے ہی ہو سکتا ہے۔‘‘وطن عزیز میں ہر سیاسی جماعت جمہوریت کی علمبردار بنی نظر آتی ہے جو ووٹ لینےکیلئے عوام سے وعدے تو کرتی ہے مگر ان وعدوں پر عمل پیرا نہیں ہوتی۔ یہاں محض انتخابات کے انعقادہی کو جمہوریت سمجھا جاتا ہے حالانکہ جب تک عوام جمہوری شعور سے آشنا نہ ہوں تب تک جمہوریت بے سود ہے۔ پاکستان میں نئی حکومت بنے صرف پانچ ماہ کا عرصہ ہی گزرا ہے اور ملک میں ہر طرف سیاسی محاذ آرائی اور تصادم کی کیفیت ہے۔ اسٹیبلشمنٹ سر توڑ کوشش کر رہی ہے کہ ملک میں حالات بہتری کی طرف گامزن ہوں مگرکچھ جماعتوں کیساتھ ترجیحی اور چند جماعتوں کو دیوار سےلگانے کی پالیسی کی وجہ سے نہ صرف سیاسی بلکہ معاشی میدان میں بھی بحرانی صورتحال کا سامنا ہے۔

حالیہ بجٹ میں عوام اورکاروباری طبقے پر لگائے گئے بھاری ٹیکسز، بجلی، گیس کی حد سے بڑھتی ہوئی قیمتیں عوام میں بے چینی پیدا کر رہی ہیں مگر حکومتی اور مقتدر حلقے اس تشویشناک صورتحال کو شاید سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ حکومتی عہدوں پر فائز اعلیٰ شخصیات، وزراء اور اراکین پارلیمنٹ کو عوام سے زیادہ فکر اپنی مراعات اور ڈویلپمنٹ اسکیموں کی ہے جن کیلئے اربوں روپے بجٹ میں مختص کئے گئے ہیں ۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں میں اربوں روپوں کی کمیشن کے اسکینڈل سامنے آتے ہیں اور چند روز بعد خاموشی ہو جاتی ہے۔ امپورٹرز، ایکسپورٹرز اور دوسرے کاروباری افراد جن کا واسطہ مختلف سرکاری اداروں کیساتھ پڑتاہے، رشوت یا مخصوص پرسنٹیج دیئے بغیر انکے جائز کام بھی نہیں ہوتے۔ ماضی میں پرکشش سیٹوں پر تعیناتی کیلئے جو ڈیمانڈز کی جاتی تھیں اور جس طرح سے تعیناتیاں ہوتی تھیں وہ سلسلہ کسی حد تک اب بھی جاری ہے جس سے حکومت اور سرکاری اداروں کی نیک نامی پر حرف آ رہا ہے۔ لگتا یوں ہے کہ چیک اینڈ بیلنس اور جزا وسزا کا نظام مفقود ہو چکا ہے۔ یو کر ائن سے اربوں روپے کی گندم امپورٹ کرنے کا اسکینڈل چند افسران کے ذمے ڈال کر بات ختم کر دی گئی۔ ایک ادارے کے لاہور میں واقع آفس میں اسپیڈ منی کے بٹوارے کیلئے اعلیٰ افسران کی لڑائی کی خبریں ہر سو پھیلی ہوئی ہیں مگر ان کے خلاف کیا کارروائی ہوئی کچھ علم نہیں۔ ملک کی آبادی بڑھتی جا رہی ہے ۔ امن عامہ کی صورتحال خراب سے خراب تر ہو رہی ہے۔ ملکی وسائل میں کمی آرہی ہے۔ غربت اور بیروزگاری میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی اور مذہبی انتہا پسندی میں اضافہ ہو رہا ہے مگر اشرافیہ اور افسرشاہی اپنے خرچے اور مراعات کم کئے بغیر اوور سیز پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی گئی بھاری رقوم اور بین الاقوامی اداروں سے لئے گئے قرضوں سے اپنی کرنسی کو مستحکم اور حکومتی خرچے پورے کر رہی ہے۔ کبھی ہم نے سوچا ہے کہ صدر، وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ، وزراء، اراکین اسمبلی اور اعلیٰ افسران کی تنخواہوں، مراعات اور پروٹو کول پر ایک غریب اور ڈیفالٹ کے قریب ملک کا کتنا پیسہ خرچ ہو رہا ہے اور کس طرح قیمتی قومی اثاثے بیچ کر یہ تمام خرچے پورے کیے جارہے ہیں ۔ ہماری سابقہ اور موجودہ حکومتوں نے ملک کے مستقبل اور آنے والی نسلوں کیلئے کیا منصوبہ بندی کی ہے؟ تعلیم، صحت، امن عامہ، توانائی، روز گار کی فراہمی، اقلیتوں کے حقوق، عورتوں کی معاشرے میں باوقار قبولیت، کسانوں اور مزدوروں کی خوشحالی، بے ہنگم بڑھتی آبادی، معاشرتی اقدار کی تنزلی، بے سمت نوجوان نسل کی رہنمائی اور عمر رسیدہ افراد کے مسائل کیلئے ہماری حکومتوں نے کیا اقدامات کیے ہیں اور کیوں ملک کا ہر شہری غریب یا امیر بے یقینی، مایوسی اور نا امیدی کا شکار ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوریت سے عوام کی حالت زار بہتر ہوئی یا پہلے سے ابتر ہو گئی ہے۔ ابتک آنے والی جمہوری حکومتوں وزرائے اعظم، وزرا اور ممبران قومی اسمبلی نے خوا ہ وہ کسی بھی پارٹی سے ہوں کبھی ملک یا ان عوام کیلئے سوچا جنھوں نے ووٹ دے کر انھیں منتخب کیا۔ دراصل ہمارےملک کے عوام کی تعلیم و تربیت اور ٹریننگ ایسی نہیں کہ وہ حقیقی جمہوری نظام لا کرا سکے ثمرات سے مستفید ہو سکیں۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب چاروں صوبائی حکومتوں کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ عوامی نمائندے آپس میں ہی برسر پیکار ہیں اور دوسرے صوبوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ کہیں کرپشن کے بازار سرعام کھلے ہیں، تو کہیں نمائشی پروگرام جاری ہیں۔ کہیں مرکزی حکومت کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں تو کہیں امن عامہ کے مسائل حکومتی سردرد بنے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں چو بیس کروڑ آبادی کے ایٹمی قوت کے حامل ملک کے لاچار اور بے بس عوام کسی دیکھے ان دیکھے مسیحا کےانتظار میں ہیں۔ گنتی کے چند ممالک کے علاوہ اسلامی دنیا کے بیشتر ممالک میں جمہوریت نہیں ہے ہمیں بھی حالات کو دیکھتے ہوئے اپنے نظام حکومت کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے، ایک ایسا نظام جہاں تمام تر اختیارات مرکز میں ایک شخص کے پاس ہوں جو قابل، ایماندار، منصف، محب وطن اور تمام عوام کیلئے قابل قبول ہواورایک مستعد ٹیم تشکیل دے کر ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر سکے۔ تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور مقتدر اداروں کے سربراہان پر مشتمل ایک ایڈوائزری سپریم کونسل یا کونسل آف ایلڈرز قائم کی جا سکتی ہے جنکا مشاورتی رول ہو اور وہ اپنا پروٹوکول انجوائے کریں مگر حکومتی معاملات میں مداخلت نا کریں اور یہ نظام کم از کم اس وقت تک چلے جب تک کہ ہمارے عوام کی تعلیم و تربیت جمہوریت کو سمجھنے اور پرکھنے کے قابل نہ ہو جائے۔

(صاحب مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)

تازہ ترین