طالبان کے جنگ بندی کے اعلان کے بعد دہشت گردی کے چند واقعات ضرور ہوئے ہیں اور شاید مزید بھی ہوں مگر عمومی طور پر صورت حال پہلے سے قدرے بہتر ہے۔ پہلے والی افراتفری نہیں ہے ۔ اس صورتحال سے کچھ حقائق پر روشنی پڑتی ہے۔ اول یہ کہ ملک میں جو بھی دہشت گردی کے واقعات ہو رہے تھے چاہے ان میں کوئی بھی گروپ ملوث تھا کافی حد تک ان گروہوں کے درمیان ایکا تھا۔ وہ ٹی ٹی پی کی کمان میں تھے یا نہیں انہوں نے اس کے سیز فائر کے اعلان پر کافی حد تک عمل کیا۔کچھ بہتر صورت حال سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ گروپ بات چیت کے عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتے ہیں اور کسی حد تک سنجیدہ بھی ہیں کہ مذاکرات کامیاب ہوں تاہم ابھی تو یہ عمل شروع ہوا ہے اس میں بہت نشیب و فراز آنے ہیں جن میں طالبان کی سنجیدگی ظاہر ہو گی۔ وزیراعظم نوازشریف نے تو واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ وہ ان طالبان کو رہا کرنے پر آمادہ ہیں جو دہشت گردی میں ملوث نہیں۔ اس طرح حکومت اشارہ دے رہی ہے کہ وہ ان عورتوں، بچوں اور بوڑھے افراد کو رہا کر دے گی جو ایجنسیوں کی تحویل میں ہیں۔ طالبان ایسے لوگوں کی رہائی کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ دہشت گردی کے واقعات میں کسی حد تک کمی۔ وزیراعظم کے موجودہ اعلان اور کچھ دوسرے اقدامات نے آئندہ مذاکرات کے لئے ماحول کچھ سازگار بنا دیا ہے جو خوش آئند ہے۔ سیز فائر کے اعلان کے بعد دہشت گردی کے ہونے والے واقعات سے تحریک طالبان پاکستان لاتعلقی کا اظہار کرتی رہی ہے مگر یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے عناصر کو تلاش کرے جو بات چیت کے عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں میں لگے ہیں۔ اگر ایسے واقعات ہوتے رہے تو حکومت کے لئے مذاکرات جاری رکھنا بہت مشکل ہو گا۔
طالبان سے بات چیت کے عمل نے دو بڑے سیاسی حریفوں یعنی نوازشریف اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کو ایک میز پر لابٹھایا ہے۔ اب دونوں دہشت گردی کے بارے میں ایک جیسے خیالات رکھتے ہیں ۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان ایک عرصہ سے عمران خان کے ساتھ لگا تار رابطے میں ہیں اور انہیں مذاکرات کے بارے میں بریف کرتے رہے ہیں۔ ایک وقت میں دونوں ایک دوسرے کے خلاف سخت ترین بیانات دیتے رہے مگر اب ان کے درمیان بہترین تعلقات قائم ہو گئے ہیں یہاں تک کہ عمران خان بار بار کہہ چکے ہیں کہ چوہدری نثار بہت محنت کر رہے ہیں اور بڑے پر خلوص طریقے سے طالبان سے بات چیت کی کامیابی کے لئے کوشاں ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے رویّے میں تبدیلی جو ان رابطوں کی وجہ سے ہوئی نے وزیراعظم کو قائل کیا کہ وہ ان کے گھر جا کر ان سے ملاقات کریں۔ دراصل عمران خان نوازشریف سے ملاقات کرنا چاہتے تھے مگر وزیراعظم نے فیصلہ کیا کہ وہ خیرسگالی کے طور پر ان کے گھر جاکر ان سے ملیں گے۔ اس ملاقات نے پاکستان کی سیاست میں ایک نئی روایت ڈالی ہے اور قومی مسائل پر قومی لیڈر شپ یک زبان ہوئی ہے۔ عمران خان کے مشورے سے ہی پی ٹی آئی کے رہنما اور ریٹائر بیورکریٹ رستم شاہ مہمند کو حکومتی کمیٹی میں شامل کیا گیا ہے۔ ان کی شمولیت یقیناً بہت اچھی ہے کیونکہ وہ قبائلی امور کے ماہر ہیں اور طالبان اور ان کی سیاست کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ ان کے علاوہ سیکرٹری پورٹس اینڈ شپنگ حبیب اللہ خٹک ٗ ایڈیشنل سیکرٹری فاٹا سیکرٹریٹ اور پرائم منسٹر آفس کے ایڈشنل سیکرٹری فواد حسن فواد اس کمیٹی کے ممبر بنائے گئے ہیں۔ اس طرح یہ صرف بیوروکریٹس کی کمیٹی ہے جو صرف وہی کرے گی جو وزیراعظم اس سے کہیں گے۔ یہ بات چیت کے دوران فیصلے کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہو گی اور اسے بار بار وزیراعظم سے رہنمائی لینی پڑے گی۔ یہ پرانی کمیٹی جو تحلیل کر دی گئی ہے، کی طرح وزیر داخلہ جو اس کے فوکل پرسن ہیں کے ساتھ قریبی رابطہ رکھے گی۔ بیورو کریٹس کے کام کرنے کا انداز سیاستدانوں سے بالکل مختلف ہوتا ہے یہ فیصلے لینے میں سست روی کا شکار ہوتے ہیں اس وقت تک کہ جب تک انہیں ایسا کرنے کے لئے دھکیلا نہ جائے۔ خیال یہ کیا جاتا ہے کہ پاک فوج اور انٹرسروس انٹیلی جنس ایجنسی (آئی ایس آئی )اس نئی کمیٹی کے کام کو ہر قسم کی سہولت فراہم کرے گی مگر بظاہر ان کا کوئی بھی افسر اس کمیٹی کا ممبر نہیں ہے۔ اب تھوڑا سا ذکر ہو جائے وزیر خزانہ اسحاق ڈارکے کمال کا ۔ انہوں نے صرف 100دنوں میں ہی اپنا ایک وعدہ پورا کر دیا۔ انہوں نے پچھلے سال دسمبر میں اعلان کیا تھا کہ وہ امریکی ڈالر کی قدر 100روپے سے کم کردیں گے اور ساتھ ہی انہوں نے انویسٹرز سے کہا تھا کہ جنہوں نے ڈالر خرید کر ذخیرہ کئے ہوئے ہیں فوراً بیچ دیں ورنہ گھاٹے میں رہیں گے۔ معلوم نہیں ان حضرات نے ایسا کیا یا نہیں تاہم ان لوگوں کو نقصان ضرور ہوا ہے جنہوں نے ابھی بھی ڈالر اپنے لاکروں میں رکھے ہوئے ہیں تاکہ جب وہ مہنگے ہوں تو وہ انہیں بیچ دیں ۔جب تین ماہ قبل وزیر خزانہ نے یہ وعدہ کیا تو اکثر لوگوں کو یقین نہیں تھا کہ وہ اسے پورا کر سکیں گے ۔ ان کا خیال تھا کہ یہ ایک سیاسی نعرہ ہے جس کا مقصد حکومت کی ساکھ بہتر بنانا ہے۔ شیخ رشید جیسے لوگوں نے تو اپنی قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہونے کا اعلان بھی کر دیا تھا۔ ڈالر کی قدر میں کمی اور روپے کی قیمت میں اضافے کی وجہ سعودی عرب کی طرف سے دیئے گئے ڈیڑھ ارب ڈالر بھی ہیں جنہوں نے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو کافی بہتر بنا دیا ہے۔ اس سے لوگوں کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ اسحاق ڈار کے لئے اب سب سے بڑا چیلنج روپے کی ڈالر کے مقابلے میں قیمت کو مستحکم رکھنا ہے۔ ڈالر کی قیمت گرنے سے پاکستان کے بیرون قرضوں میں 800ارب کی کمی ہوئی ہے جو کہ بہت ہی اچھی خبر ہے۔ اسحاق ڈار کے لئے یہ ٹیسٹ بھی کسی لحاظ سے چھوٹا نہیں کہ وہ مہنگائی میں بھی خاطر خواہ کمی کے لئے اقدامات کریں تاکہ عام آدمی سکون سے رہ سکے ۔ روپے کی قیمت میں بہتری کا ثمر عام لوگوں تک اس وقت ہی پہنچے گا جب روزمرہ کی اشیاء کی قیمتوں میں کمی ہو گی تاہم اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسحاق ڈار نے دن رات ایک کر رکھا ہے تاکہ وہ لوگوں کو فرق محسوس کرا سکیں کہ موجودہ حکومت اپنے پیشرو سے کس طرح بہتر ہے۔