وہ کہنے لگے، میرا لیڈر اتنا خوش قسمت اور میں اس ’’مروجہ‘‘ خوش قسمتی سے کوسوں دور کیوں؟ یہ وہ سوال ہے جو مجھے اندر ہی اندر کھائے جا رہا ہے۔ میری لیڈر سے والہانہ محبت ہے کہ جو جمہوریت کو مرنے نہیں دیتی اور دوسری جانب میرے محبوب رہنما کی وہ محبت کہ جو مجھے جینے نہیں دیتی۔ الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟
شاہ جی کا اپنا ایک اسٹائل ہے، وہ بدلےنہ کبھی ان کا جمہوری رویہ۔ چار دہائیوں کی دنیا داری کا تجربہ الگ ہے، اوپر سے دَیالُو بھی، اپنی اداؤں کے سبب ہیں وہ شہنشاہ۔ جس طرح ہمارے کچھ دوست شارٹ کٹ کو تھوڑا سارٹ کٹ کر لیتے ہیں ایسے ہی شہنشاہ کو ہم نے شاہ بنا لیا، بہرحال تمام تر ناامیدی کے باوجود وہ کہتے ہیں کہ میرا لیڈر اسٹیبلشمنٹ اور بیورو کریسی کے سبب غیر سنجیدہ لگتا ہے مگر ہے نہیں! قول و فعل کے تضادات، لاقانونیت کے امراض، وعدہ خلافیوں کے سب منظر، پارٹی یا بیانیہ بدلنا یا لوٹا ازم کی فضیلتوں کو مقدم جاننا، یہ سب لیڈر نے اپنے مقتدری و آمر مشیروں، سنٹر لسٹ فلسفیوں اور یونینسٹ بڑوں سے سیکھا ہے۔ جب شاہ جی سے کہا آپ بھی لیڈرانہ داؤ پیچ سیکھ کیوں نہیں لیتے تو کہنے لگے اگر خانقاہوں کو لیڈر مانوں تو روٹیوں تک کا بندوبست مجھے کرنا پڑے گا، پیشوا کسی اسلامی جماعت کا پکڑوں تو اقتدار کی راہداریوں کا راستہ ہی گیا، بیورو کریٹس کو گُرو مان لوں تو ان سب فائلوں اور پالیسیوں سمیت ان پر ایمان لانا پڑتا ہے جنہیں وہ محض اپنی پروموشن کیلئے مرتب کرتے ہیں، قوم کیلئے نہیں کہ آخر ترقی اس بنیاد پر ملنی ہے کہ یہ کتنا بڑا ’’پالیسی ساز‘‘ ہے۔ کسی جرنیل کو مانوں تو دل کی بالکونیاں اس کے جاہ و جلال اور بُوٹوں کی تھاپ کی تاب نہ لا پائیں گی، اور کہاں ضیائی بھول بھلیوں، ایوبی چابک دستیوں اور پرویزی سرابوں میں بھٹکا پھروں گا لہٰذا ان پراسرار پگڈنڈیوں پر سے گزرنے، ججوں کی رہنمائی میں عزت مآب جسٹس منیر، مولوی مشتاق، افتخار چوہدری اور ثاقب نثار سمیت کچھ اور مہربان خوابوں میں بھی ڈراتے ہیں تو کیوں نہ جمہوری گُرو کے ’’صراطِ مستقیم‘‘ پر اکتفا کروں؟ گویا شاہ جی پارٹی بدل لیتے ہیں ’’لیڈر شپ‘‘ نہیں۔ شاہ جی کی باتیں تو چلتی رہیں گی، ان کا قائدِ اعظم کے بعد بھٹو صاحب کو لیڈر ماننا، بی بی کو ذہین، نواز شریف کو ترقیاتی ماہر اور آصف زرداری کو جمہوریت پسند کہنا لگا ہی رہے گا، لیکن.....
ایک مختصر تذکرہ 3 روزہ انٹرنیشنل کانفرنس کا جس کا انعقاد لاہور کالج وومن یونیورسٹی میں وی سی ڈاکٹر شگفتہ ناز، ڈاکٹر محمد افضل اور ڈاکٹر عارفہ کی گہری دلچسپی اور محنت سے ہوا، بین الاقوامی سائنسدانوں، وزرا، ٹیکنوکریٹس کے علاوہ اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان بھی رونق افروز ہوئے۔ واضح رہے کہ تعلیمی مفتیان کرام، کچھ سیاست دان اور ٹیکنوکریٹس کی ایک پینل ڈسکشن ’’عالمی پائیداری میں سوسائٹی، دانش گاہوں اور ریاست کا کردار‘‘ کے حوالے سے ہمارے ایک دوست کو کہنے یا حل بتانے کیلئے کچھ نہ ملا تو ذوالفقار علی بھٹو پر بات لے آئے کہ وہ انڈسٹری کے زوال کا سبب بنے۔ ٹھیک ہے اس پر مکالمہ ہو سکتا ہے، لیکن سوال یہ بھی تو پیدا ہوتا ہے کہ بعد میں آنے والے آمروں اور جمہوریت نوازوں نے انڈسٹری کو اٹھا کر وطن عزیز سے عشق کا ثبوت کیوں نہ دیا؟ جہاں تک بھٹو صاحب کا معاملہ ہے ان کے حوالے سے 29جنوری 1976میں نیو یارک ٹائمز نے اپنے ایک آرٹیکل ’’پاکستان: بھٹو کی حکومت میں ترقی کے اشارے‘‘ میں لکھا کہ بھٹو حکومت کے پہلے 2 سال میں جی ڈی پی شرح 7.4 ٪ تھی تاہم مجموعی طور پر جی ڈی پی 4.8٪ رہی۔ اہم یہ کہ اس دوران عالمی منڈی میں تیل کے نرخ تقریباً 5 گنا بڑھے ( 2.48ڈالر فی بیرل سے 12.89ڈالر فی بیرل تک)۔ یوں 1971کی پاک بھارت جنگ، سیلابوں اور تیل کی آسمان کو چھوتی قیمتوں کے باوجود 1977تک 140ڈالر فی کس آمدنی 207 ڈالر فی کس تک بڑھی! علاوہ بریں 1970-72میں امریکہ سے امداد اور ادھار کی مد میں 0.6میٹرک ٹن گندم بھی لینا پڑی تاہم بمطابق نیویارک ٹائمز 1974تا 1976کھاد کی پروڈکشن بہت بڑھی، زرعی ٹیکنالوجی اور اصلاحات کو فوقیت اور عمل ملے، یوں فی ایکڑ پیداوار میں بےتحاشا اضافہ ہونے لگا۔ یقیناً بھٹو صاحب کی نیشنلائز پالیسی پر سوال اٹھتے ہوں گے یہ طویل المدتی درست اقدام نہیں بھی ہو سکتا ہو گا، اس پر مکالمہ بھی بہرحال بنتا ہے مگر اس کا مطلب یہ کہ دیگر حقائق کو کُلی طور پر فراموش کر دیا جائے؟ یہاں اسٹیبلشمنٹ کی کوشش رہی ہے کہ کبھی کسی عوامی نمائندے کو کریڈٹ ہی نہ ملے بھلے وہ حسین شہید سہروردی، محمد خان جونیجو، میاں نواز شریف، بےنظیر بھٹو اور آصف زرداری ہی کیوں نہ ہوں! میرے محبوب مقتدر کی یہ ’’رعنائی‘‘ ہے کہ اس نے ہمیشہ الگ ہی ڈفلی بجائی ہے!
قومیانے کا واویلا کرنے والوں نے کبھی تاریخ کھنگالی کہ 1971کی پاک بھارت جنگ کے بعد بھی 1972-73میں انڈسٹری سیلز 64٪ بڑھی۔ 1976میں 1428ملین سے معاملہ 2349ملین تک گیا۔ 1974-75کے دوران پبلک سیکٹر میں کثیر سرمایہ کاری ہوئی۔ ماضی کی نسبت برآمدات میں 153٪ اور صنعتی پیداوار میں 19٪فیصد اضافی ہوا۔ 1972میں مکمل اثاثے 1910ملین روپے اور ذمہ داریاں 1420ملین تھیں۔ یوں مجموعی مالیاتی حجم 490ملین روپے رہا۔ 1975-6میں نیشنلائزڈ یونٹس نے گویا کارپوریٹ ٹیکس،سیلز ٹیکس اور ایکسائز ڈیوٹی اور دیگر کی مد میں 1330ملین روپے ادا کئے۔ یہی اس سے ایک سال قبل 1210 ملین، دو سال قبل 660ملین، تین سال قبل 390ملین جبکہ نیشنلائزیشن سے قبل یہی ٹیکس وصولی 200 ملین سے کم تھی... دوسرے لفظوں میں نیشنلائزیشن سے پہلے جن اداروں سے سالانہ ٹیکس وصولی 200 ملین روپے تھی، وہ نیشنلائزڈ ہونے کے بعد 6.5گنا ہو کر1975-76 میں 1300ملین تک جا پہنچی!
قصہ مختصر بقول شاہ جی لیڈر و مقننہ کبھی غیر سنجیدہ تھے ہی نہیں (منیر نیازی سے معذرت):
میری ساری زندگی کو بے ثمر مقتدر نے کیا
عمر میری تھی مگر اس کو بسر مقتدر نے کیا