متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے سربراہ خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ آج پاکستان کا تعلیمی نظام نائیجریا کے تعلیمی نظام سے مقابلہ کر رہا ہے۔
کراچی میں فاروق ستار کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ایک سے 15 گریڈ کی نوکریاں مقامی لوگوں کو ملنی چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ لوگوں نے سرکاری نوکری کے لیے درخواست دینی چھوڑ دی تھی، 50 سالوں میں انصاف سے محرومی کی پوری تاریخ ہے، ہم سندھ ہائی کورٹ کے 30 جون کے فیصلے پر شکر گزار ہیں۔
خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے کہ 56 ہزار نوکریاں جو تعصب، نسل پرستی پر دی جاتی تھیں عدالت نے زرا ٹھہرو کی آواز لگائی ہے، انصاف رینگتے ہوئے پہنچ ہی گیا، اس فیصلے نے نوجوانوں اور قوم کو یقین دیا ہے۔
ایم کیو ایم کے رہنما نے کہا کہ سپریم کورٹ سے درخواست کرتا ہوں چیف جسٹس کے آنے سے پہلے 140 اے پر عمل درآمد کا فیصلہ آچکا ہے لیکن اس پر عمل نہیں ہو رہا، چیف جسٹس اس پر سو موٹو ایکشن لیں۔
ان کا کہنا ہے کہ دیکھا جائے 50 سالوں میں اس کوٹا سسٹم پر عمل درآمد ہوا یا نہیں، جعلی ڈومیسائل بنا کر شہری علاقوں کی نوکریوں پر قبضہ کیا گیا۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے فاروق ستار نے کہا کہ 60 فیصد دیہی بھائیوں کے لیے تو 40 فیصد کوٹا کراچی اور حیدرآباد کے نوجوانوں کے لیے تھا، 80 فیصد سے زیادہ نوکریاں شہری علاقوں کے لوگوں کو نہیں ملیں۔
فاروق ستار کا کہنا ہے کہ کوٹا سسٹم جاگیر دارانہ سسٹم کو بچانے کے لیے لگایا گیا، کوٹا سسٹم نافذ کراچی، حیدر آباد اور سکھر کے نوجوانوں پر سرکاری ملازمتوں کے راستے بند کرنے کے لیے کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم 50 سالوں میں کوٹا سسٹم کے ناجائز استعمال کو ختم نہیں کروا سکے، سندھ ہائی کورٹ نے کل ہمارے مؤقف کی تائید کی ہے، اگست 2023 میں ان نوکریوں کے خلاف مقدمہ دائر کیا، ایم کیو ایم نے میرٹ کے ایک اور قتل کو روکا ہے۔
ایم کیو ایم کے رہنما کا کہنا ہے کہ سندھ کے نوجوانوں کے مستقبل کو تاریک کیا جا رہا تھا، اس پر ہم نے بریک لگا دیا ہے، ایم کیو ایم کی پہلی کامیابی آبادی میں سندھ کو 37 فیصد کرایا، ہم نے لاپتہ آبادی کو بازیاب کرایا، اس کے بعد آرٹیکل 140 اے کا مقدمے میں ایم کیو ایم کا کامیابی حاصل ہوئی، تیسری کامیابی 8 فروری کے الیکشن میں اپنی چھینی ہوئی نشستیں حاصل کیں۔