وطن عزیز میں سیاسی جماعتیں کیسے بنتی ہیں؟یہ معمہ حل کرنے کے لئے ماضی کی ایک مثال آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔1985ء کے عام انتخابات کے بعد جنرل ضیاالحق نے محمد خان جونیجو کویہ سوچ کر وزیراعظم بنایا کہ سیاسی تائید و حمایت کے بعد سربراہ حکومت کا منصب سنبھالنے والا یہ شخص زندگی بھر ان کا ممنون رہے گا اور جمہوری تماشے کیلئے بہترین کٹھ پتلی ثابت ہوگا۔مگر سندھ کی مٹی اور وزارت عظمیٰ کے عہدے میں ایسی جادوئی طاقت ہے کہ مرنجاں مرنج قسم کے منکسر المزاج لوگ بھی ڈکٹیشن لینے سے انکار کردیتے ہیں ۔وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے کئی مواقع پر جنرل ضیاالحق کو یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ پارلیمانی جمہوریت میں صدر کی حیثیت محض علامتی سربراہ ریاست کی ہوتی ہے ۔مثلاً جب میانداد نے شارجہ میں آخری گیند پر چھکا مار کر میچ جیتا تو جنرل ضیاالحق نے کھلاڑیوں کو تحفے میں ملنے والی کارپر درآمدی ڈیوٹی ختم کرنے کا اعلان کردیا مگر وزیراعظم محمد خان جونیجو نے یہ استثنیٰ واپس لے لیا۔پارلیمنٹ کا پہلا سال مکمل ہونے پر جنرل ضیاالحق کو مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے کیلئےوزیراعظم سیکریٹریٹ سے لکھی ہوئی تقریر بھجوادی گئی۔جنرل ضیاالحق کو وزیراعظم کے اصرار پر بادل نخواستہ جنرل اسلم بیگ کو وائس چیف آف آرمی اسٹاف لگانا پڑا۔جنرل اختر عبدالرحمان کو ہٹا کر میجر جنرل حمید گل کی بطور ڈی جی آئی ایس آئی تعیناتی بھی وزیراعظم کے ایما پر ہوئی ۔وزیراعظم منتخب ہوتے ہی محمد خان جونیجو نے پہلا سوال یہ کیا کہ آپ مارشل لا کب اُٹھا رہے ہیں ۔1985ء کے انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوئے تھے مگر وزیراعظم چند ہفتوں میں ہی اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ سیاسی جماعت کی موجودگی کے بغیر ایوان کو موثر انداز میں چلانا ممکن نہیں ۔لہٰذا محمد خان جونیجو نے فوری طور پر سیاسی جماعت تشکیل دینے کا مطالبہ کردیا۔جنرل ضیاالحق اپنے روایتی مزاج کے عین مطابق دو ٹوک انکار کرنے کے بجائے ٹال مٹول سے کام لیتے رہے مگر جب وزیراعظم کا اصرار بڑھتا چلا گیا تو جنرل ضیاالحق نے ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس بلایا اورطویل تقریر کے دوران سیاسی جماعتوں کے منفی اثرات پر اپنے اندیشہ ہائے دور دراز کا بھرپور اظہار کرنے کئے بعد شرکا ء کو بتایا کہ وزیراعظم محمد خان جونیجو پارلیمنٹ کے معاملات میں نظم و ضبط لانے کیلئے سیاسی جماعت کی موجودگی کو ناگزیر خیال کرتے ہیں۔چونکہ میں جمہوریت کو پھلتے پھولتے دیکھنا چاہتاہوں اور کسی قسم کی رکاوٹ کھڑی کرنے کا قائل نہیں اس لئے وزیراعظم کی خواہش کے عین مطابق میں پیر پگاڑا صاحب سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اپنی پارٹی،مسلم لیگ کی زمام کار محمد خان جونیجو کے سپرد کریں۔جنرل ضیاالحق کی تقریر کے بعد وزیراعظم محمد خان جونیجو مخاطب ہوئے۔انہوں نے کہا کہ میں سیاسی جماعت بنانے کی اجازت دینے پر جنرل صاحب کا شکر گزار ہوں اور اپنے مربی جناب پیر صاحب پگاڑا کا بھی ممنون ہوں کہ انہوں نے اپنی جماعت کی سربراہی مجھے سونپ دی ہے۔جب یہ سب ہوچکا تو پیر صاحب پگاڑا کے اظہار خیال کی باری آئی۔جیسا کہ آپ جانتے ہیں پیر صاحب پگاڑا کی بذلہ سنجی اور جملے بازی کا ایک زمانہ معترف ہے۔پیر صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا ،پہلی بات تو یہ ہے کہ مجھے اس اجلاس کا ایجنڈا معلوم نہیں تھااور چونکہ خواتین بھی اس نشست میں موجود ہیں اس لئے میں کھل کر تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے محض اتنا کہنے پر اکتفا کروں گا کہ آج آگے اور پیچھے ہاتھ رکھ کر جس طرح میں نے اپنی عزت بچائی ہے ،وہ میں ہی جانتا ہوں ۔قصہ مختصر یہ کہ اب جبکہ جنرل صاحب مسلم لیگ کی قیادت وزیراعظم کے حوالے کرچکے ہیں اور محمد خان جونیجو یہ عہدہ قبول بھی کرچکے ہیں تو اب میں کیا کہہ سکتا ہوں ۔یہ دونوں حضرات بس اتنا بتادیں کہ اس حوالے سے میرا منافع یکمشت ہوگا یا قسط وار؟نقد ہوگا یا اُدھار ؟ اور کس شرح اور تناسب سے ہوگا؟یہ واقعہ یوں یاد آیا کہ نوازشریف کے چند ساتھیوں نے نئی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کیا ہے۔سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ،سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل ،سابق وزیراعلیٰ اور گورنر سردار مہتاب عباسی ،سابق صوبائی وزیر زعیم قادری اور دیگر رہنمائوں کی قائم کردہ ’’عوام پاکستان پارٹی‘‘کا نعرہ ہے ’’بدلیں گے نظام‘‘۔یہ لوگ تو برسہا برس سے اسی نظام کا حصہ رہے ہیں ،تکلف برطرف کیا وہ نظام بدلیں گے؟لیکن اس حوالے سے پھر کبھی گفتگو ہوگی۔سردست تو جناب شاہد خاقان عباسی کاایک جملہ قابل غور ہے ۔نئی سیاسی جماعت کا اعلان کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہاکہ پاکستان میں سیاست کی ناکامی کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ آج اس ملک میں عام آدمی بھی سمجھتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے بغیر سیاست نہیں ہوسکتی۔یہ سوچ اس لئے بنی کہ جو سیاسی جماعتیں بنیں ،وہ انہوں نے ہی بنائیں ۔لوگ ہم سے اشاروں کنایوں میں پوچھتے ہیں کہ کیا اسٹیبلشمنٹ آپ کے ساتھ ہے؟حالانکہ یہ بات اشاروں کنایوں میں نہیں سرعام پوچھنے والی ہے بلکہ میری دانست میں تو پوچھنے یا بتانے کا تردد اور تکلف کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ۔کیا آپ کسی ایسی سیاسی جماعت کا نام لے سکتے ہیں جوبقول شاہد خاقان عباسی ’’انہوں‘‘نے نہ بنائی ہو۔آپ نے شاید کسی جگہ اس کاروباری حکمت عملی کا مشاہدہ کیا ہوکہ آس پاس ایک طرح کی کئی دکانیں ہوتی ہیں ،ان پر مختلف بورڈ آویزاں ہوتے ہیں ،عملہ تبدیل ہوتا ہے لیکن یہ سب دکانیں ایک ہی کمپنی کی ملکیت ہوتی ہیں ۔مقصد یہ ہوتا ہے کہ گاہک جس بھی دکان کا رُخ کرے ،سرمایہ اپنے پاس ہی آئے۔ یہاں بھی وہی اصول اور ویسی ہی سوچ کارفرما ہے ۔ہاں البتہ بعض سیاسی جماعتیں ،بعض سیاسی رہنما شعوری ارتقا کے نتیجے میں سیاسی پختگی اور بلوغت کا سفر طے کرکے کسی حد تک ’’ان‘‘کے اثر و رسوخ سے باہر نکل جاتے ہیں۔ طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ جب کوئی سیاسی جماعت ’’ان‘‘ کیلئے پریشانی کا باعث بن رہی ہوتی ہے تو تب ہی کوئی نیا نعرہ دیکر نئی سیاسی جماعت متعارف کروادی جاتی ہے۔