• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روزنامہ جنگ میں 5؍جولائی کے حوالےسے کالم میں اعجازالحق نے خود کو ایک سیاسی کارکن قرار دیتے ہوئے 5جولائی 1977ء کے اپنے والد محترم کی فوجی مداخلت کو جائز قرار دینے کی وکالت کرتے ہوئے بیان کیا کہ میرے والد کا 5جولائی 1977ء کو پاکستان کے آئین کے مطابق ایک جمہوری اور آئینی حکومت کو توڑنا جائز تھا اور ایک منتخب وزیر اعظم کو گرفتار کرنا آئین کے مطابق تھایعنی ان پر آئین کی دفعہ 6کی غداری کے قانون کو لاگو نہیں کیا جاسکتا۔ گویا ان کے مطابق وزیر اعظم بھٹوکی پھانسی بالکل آئین کے مطابق تھی۔ واضح رہے کہ ابھی دو ہفتہ قبل سپریم کورٹ کا فل بینچ فیصلہ دے چکا ہے کہ بھٹو شہیدکی پھانسی ایک جوڈیشل قتل تھا۔ جس فیصلے کے مطابق بھٹو شہید کے قتل میں وہ تمام لوگ شامل تھے جو انکی پھانسی کا باعث بنے تھے ۔ جن میں ظاہر ہے کہ سر فہرست انکے والد کا ہی نام آتا ہے ۔ مجھےسب سے پہلے ان کے خود کو سیاسی کارکن کہنے پر بات کرنی ہے ۔ اسلئے کہ انکے خود کو سیاسی کارکن کہنے سے نہ صرف میرا بلکہ پاکستان کے تمام سیاسی کارکنوں کا استحقاق مجروح ہوا ہے ۔ دوسرا انہوں نے بھٹو شہید پر وہ الزامات تحریر کیے جنکو تاریخ غلط ثابت کر چکی ہے۔ پیپلز پارٹی کے کارکنوںپر مالی مفادات اٹھانے کا الزام لگایا ہے ۔ جن سیاسی کارکنوں کو انکے والد نے جیلوں میں ڈالا تھا ، انکو کوڑے مارے گئے تھے ان میں سے ایک تو تختہ دار پر بھی لٹکایا گیاتھا ۔جیلوں میں جانیوالی خواتین بھی تھیں جنکو پارٹی کے کارکنوں کے ساتھ شاہی قلعے میں رکھا گیا تھا۔ جیل جانے والوں میں راقم خود بھی شامل تھا۔ میری ہمشیرہ اور میری بیٹی بھی شامل تھی،جن کو با مشقت سزاد ی گئی تھی ۔ پیپلز پارٹی جو 5جولائی 1977ء کے دن جو ماتم کرتی ہے اس دن کا ماتم اگر وہ نہیں تو کیا جنرل ضیاء الحق کا بیٹا اعجاز الحق کرے گا۔ مگر یہاں تو معاملہ ہی اسکے الٹ ہے پیپلز پارٹی کی طرف سے 5جولائی کے بارے میں نہ اخبار میں کوئی خبر شائع ہوئی اور نہ اس بد نصیب دن کے بارے میں پیپلز پارٹی کی طرف سے کوئی کالم کسی نے تحریر کیا ۔ الٹا شہید بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے والے اور پاکستان کا آئین توڑنے والے جنرل ضیاء الحق کا بیٹا کالم تحریر کر رہا ہے کہ پیپلز پارٹی اور پاکستان کے آئین اور شہید ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا تھا وہ آئین کے مطابق ہوا۔سیاسی کارکن برادرم اعجاز الحق کو معلوم ہونا چاہیے کہ انکے والد نے پاکستان کا آئین توڑ کر ایک آئینی منتخب سیاسی جماعت کی حکومت کا تختہ الٹ کر پاکستان میں غیر جماعتی انتخابات کروا کے پاکستان سے سیاسی جماعتوں ، سیاسی قائدین ، آئین اور سیاسی کارکنوں کا جنازہ نکال دیا تھا اور پاکستان پر سرمایہ داروں ، جاگیرداروں ،خاندانوں کے غیر سیاسی بیٹوں کو پاکستان کے سیاسی لیڈر بنا دیا تھااور اپنی شخصی اقتدار سے پاکستان کو عالمی سپر طاقتوں کا میدان کارزار بنا دیا تھا۔ جس کا خمیازہ آج 2024ء تک پاکستان اور پاکستانی قوم بھگت رہی ہے ۔ برادرم اعجاز الحق اپنے باپ کے قومی جرم پر پردہ ڈالنے کیلئے تحریر کرتے ہیں کہ جہاں ملکی دفاع اور قومی سلامتی ہی متاع عزیز ہو تو پھر ملکی سلامتی کے تحفظ کو ترجیح دینا ہی ملکی سلامتی کے تحفظ کا تقاضہ ہوتا ہے ۔ وہ فرماتے ہیں جب آئین ہی اس عمل کو جائز قرار دے دے تو پھر بحث کیسی ؟یعنی شہید بھٹو کی پھانسی کی آئین انکے والد کو اجازت دیتا تھا، فرماتے ہیں کہ 1985ء کی منتخب عوامی اسمبلی میں آئین کی آٹھویں ترمیم نے انکے تمام اقدامات کو آئینی تحفظ دے دیا تھا ۔ سیاسی کارکن اعجاز الحق کو اس بات کا قطعی علم نہیں کہ کسی بھی جمہوری آئینی ملک میں نا تو غیر جماعتی انتخابات ہوا کرتے ہیں اور نہ ہی غیر جماعتی انتخابات کے ممبران سے کوئی آئینی اسمبلی وجود میں آ سکتی ہے ۔ وہ اسمبلی انکے والد چیف آف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا سیکرٹریٹ تھی جس میں مارشل لاء کے قانون کی آٹھویں ترمیم منظور کروائی گئی تھی،جسے بعد ازاں پاکستان کی آئینی طور پر منتخب ہونیوالی سیاسی جماعتوں کی اسمبلی کے ممبران کی متفقہ رائے سے ختم کر دیا گیا تھا۔ وہ خود تحریر کرتے ہیں کہ وزیر اعظم بھٹو نے آرمی چیف یعنی انکے والد کو کہا کہ میری حکومت حزب اختلاف سے مذاکرات کے دروازے بند نہیں کرئیگی۔ اگر سڑکوں پر توڑ پھوڑ کرنیوالوں سے نمٹنے کیلئے بھٹو نے آرمی چیف سے مشورہ کیا تھا تو کیا غلط کیا تھا ۔ایک وزیر اعظم کو آئین اجازت دیتا تھا کہ وہ قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو حکم کرتا کہ ملک میں لااینڈ آرڈر کو بحال کیا جائے مگر معاملہ ان کی باتوں سے بالکل الٹ ہوایعنی اعجاز الحق کی باتوں سے الٹ ہوا۔ جب پاکستان کی حزب اختلاف کے با اختیار نمائندوں کے ساتھ جن میں مولانا مفتی محمود ، مولانا شاہ احمد نورانی ، نواب زادہ نصر اللہ خان اور پروفیسر غفور احمد کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہوگئے اور رات کے تین بج جانے کی وجہ سے یہ طے پا گیا کہ صبح مذاکرات کا حکومت اور حزب اختلاف ایک ساتھ بیٹھ کر اعلان کریگی۔ جس باہمی فیصلے کی اطلاع چیف آف آرمی سٹاف جنرل ضیاء الحق کو مل چکی تھی توقومی اتحاد کے ساتھ وزیر اعظم بھٹو کے مذاکرات کامیاب ہو جانے کے بعد ایک منتخب وزیر اعظم کی حکومت پر شب خون مارکر تختہ الٹانے کی انکے والد کو کون سا قانون اور آئین اجازت دیتا تھا۔ انکے والد کا یہ فوجی کوپ ایک منتخب وزیر اعظم اور پاکستان کے آئین کیخلاف کھلی بغاوت تھی جس کی سزا پاکستان کے آئین میں دفعہ 6کے تحت غداری کی سزا ہے ۔ 5جولائی کا دن پاکستان اور پاکستان کی قوم کیلئے ایک سیاہ دن کی حیثیت رکھتا ہے ۔ شہید بھٹو نے کہا تھا کہ میری موت پر ہمالہ روئے گا ۔ آج صرف ہمالہ نہیں کاغان ، ناران اور سوات کے پہاڑ بھی خون کے آنسو بہا رہے ہیں ۔ اعجاز الحق کے والد صاحب اور انکے رفقاء پاکستان کو جس سیاسی اور مذہبی دہشت گردی کا اکھاڑہ بنا کر چلے گئے ہیں اسکا تماشادنیا دیکھ رہی ہے۔ آج ہم سب کو بحیثیت قوم مستقبل کی بات کرنا ہوگی۔ اسلئے کہ ماضی پرستی وہی کیا کرتے ہیں جن کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ پاکستان زندہ آباد اور پاکستان کی جمہوری جماعتیں اور جمہوری قائدین زندہ آباد۔

تازہ ترین