مخدوم زادہ حافظ مطلوب احمد چشتی
قرآنِ پاک نے فلسفۂ شہادت کو نہایت ہی مدلّل اور بڑے ہی واشگاف انداز میں کچھ اِس طرح بیان فرمایا ہے کہ’’ جو اللہ کی راہ میں شہید کیے جاتے ہیں، اُنہیں مُردہ مت کہو، وہ زندہ ہیں، مگر تمہیں اس کا شعور نہیں۔‘‘جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں، اُنہیں عام اصطلاح میں ’’شہید‘‘ کہا جاتا ہے۔
شہادت ’’حق‘‘ کی خاطر اللہ کی راہ میں جان دینے کو کہتے ہیں اور لغوی اعتبار سے یہ گواہی و شہادت کے زمرے میں آتی ہے۔ البتہ، شہادت کے مرتبے پر فائز ہونے والا دونوں معنویّت سے متصف ہوتا ہے۔ وہ حق کی گواہی بھی دیتا ہے اور اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کرتا ہے۔ اِس اعتبار سے نواسۂ رسولؐ، حضرت امام حسینؓ شہادتِ عظمیٰ کی اعلیٰ ترین مسند پر جلوہ افروز نظر آتے ہیں۔
اس کے علاوہ، آپؓ کی شان اِس اعتبار سے اور بھی زیادہ بلند و بالا نظر آتی ہے کہ آپؓ، امام الانبیاء حضرت محمّد مصطفیٰﷺ کے نواسے ہیں۔ آپؓ کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ آپؓ کی تعلیم و تربیت نانا جانﷺ کی آغوشِ مبارک میں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ آپؓ کے چہرۂ مبارک سے نبی کریم ﷺ کی عطا کردہ قدسی تعلیماتِ نورانی کا ازخود پتا چلتا ہے، جس کے معترف اپنے پرائے سب ہی تھے اور آج بھی ہیں اور آپؓ کے حضور خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔
حضرت امام حسینؓ کی ولادتِ باسعادت مدینہ منوّرہ میں ہوئی، جس سے عالم منوّر ہوگیا۔ آپؓ کا اسمِ گرامی’’ حسین‘‘ آپؓ کے نانا جانﷺ نے تجویز فرمایا۔ حضرت امام حسین ؓ کے کان میں توحید کی پہلی آواز بھی آپؓ کے نانا جان، حضرت محمّد مصطفیٰﷺ کی زبان مبارک ہی کے ذریعے پہنچی، جس کی گونج نے مشکل سے مشکل وقت میں بھی حق و صداقت کے پرچم کو بلند رکھنے کا حوصلہ عطا کیا، جس پر حضرت امام حسینؓ ہمیشہ قائم رہے اور اپنے لہو سے اپنے نانا جانﷺ کے دینِ مبین کی آب یاری کی، جسے رہتی دنیا تک یاد کیا جاتا رہے گا۔
نبی کریمﷺ اپنے نواسے، حضرت امام حسینؓ کو بہت چاہتے تھے اور اکثر بارگاہِ ایزدی میں یوں ملتجی ہوا کرتے۔’’اے پروردگار! مَیں حسینؓ کومحبوب رکھتا ہوں، تو بھی اُنہیں چاہ اور جو اُنہیں چاہیں، اُنہیں بھی چاہ۔‘‘ آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ’’ حسینؓ مجھ سے ہیں اور مَیں حسینؓ سے ہوں۔‘‘ نیز، یہ بھی ارشاد ہوا کہ’’حسینؓ جنّت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔‘‘
حضرت داتا گنج بخش، علی ہجویریؒ کی مشہور تصنیف ’’کشف المحجوب‘‘ کے مطابق، حضرت حسن بصریؒ فرمایا کرتے تھے کہ رسولِ اکرم ﷺ کے خاندان بنی ہاشم کے تمام افراد اُن کشتیوں کی مانند ہیں، جو ہمیشہ دریائوں میں چلتی رہتی ہیں اور صحابہؓ اُن ستاروں کی مانند ہیں، جو ہمیشہ چمکتے رہتے ہیں۔ یہی لوگ دین کے امام، ہادی اور سچّے نشان ہیں، تو جو کوئی ان کی متابعت کرے، نجات پاتا ہے، جیسا کہ اُن اہلِ ایمان کو نجات ملی، جنہوں نے کشتیٔ نوحؑ میں اُن کی متابعت کا حق ادا کیا۔‘‘
حضرت امام حسینؓ انتہائی صاف گو، ہم درد اور بہادر انسان تھے۔ آپ ؓ نے ہر معرکے میں اپنے والدِ محترم، شیرِ خدا، حضرت علیؓ کا ساتھ دیا اور ہر موقعے پر شجاعت و بہادری کے بے مثال جوہر دِکھائے اور کسی طور بھی حق کو مغلوب ہونے نہیں دیا۔
اِسی طرح جب مسلم معاشرہ دینِ محمّدیؐ سے ہٹ کر خلافِ اسلام امور کی ترویج کی سمت گام زن ہونے لگا، تو اُس وقت بھی حضرت فاطمہؓ کے نورِ عین اور حیدرِ کرار، حضرت علیؓ کے لختِ جگر، حضرت امام حسینؓ نے یزید اور اُس کے ساتھیوں کو للکارا کہ وہ اپنی مذموم حرکات سے باز آجائیں اور خلافت کے منصب پر کسی صحابیٔ رسولؐ کو فائز کریں، مگر یزید نے حضرت امام حسینؓ کو اپنی بیعت کے لیے مجبور کیا، جسے آپؓ نے مسترد کر دیا۔
دراصل، آپؓ کی ذاتِ گرامی میں دینِ محمّدیؐ کی چاہت اور اس کی حفاظت ایک فطری امر ہے، کیوں کہ آپؓ نے دنیا کے سب سے بڑے معلّم و محسنِ انسانیت، رسولِ عربی ﷺ کی گود میں آنکھ کھولی اور اُن ہی کے اخلاقِ کریمانہ اور سیرتِ پاک کو اپنے دل میں سموئے رکھا اور دینِ محمّدی ﷺ کی محبّت اپنے قلب و ذہن میں جلائے رکھی، جس کی بقا کی خاطر اُنہیں دس محرم کو اپنے خاندان کے بہتّر افراد کی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑا، جس کے باعث ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔
ہمیں حضرت امام حسینؓ کی یاد مناتے وقت یہ بات خاص طور پر ملحوظِ خاطر رکھنی چاہیے کہ اُنھوں نے جن مقاصد کے لیے عظیم قربانی دی، وہ آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ نیز، شہدائے کربلاؓ کی یاد مناتے وقت اِس بات کا عہد کرنا چاہیے کہ دینِ محمّدیﷺ کی بقا اور وطنِ عزیز کی سلامتی کے لیے ہم کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے، آپس کے اختلافات ختم کر کے حق و صداقت کا پرچم بلند رکھیں گے اور نواسۂ رسولِ مقبولﷺ کی شہادتِ عظمیٰ کی پیروی کریں گے، جن کے متعلق حضرت خواجہ معیّن الدّین چشتیؒ نے فرمایا۔؎’’شاہ است حسینؓ، پادشاہ است حسینؓ…دیں است حسینؓ، دیں پناہ است حسینؓ…سر داد، نہ داد دست، در دستِ یزید…حقّا کہ بنائے لا الہٰ است حسینؓ۔‘‘