(گزشتہ سے پیوستہ)
اس موضوع پر گزشتہ کالم میں‘ میں نے یہ بات کی تھی کہ چھوٹے صوبوں سندھ‘ کے پی اور بلوچستان کی سیاسی قیادت اور عوام کا یہ موقف ہے کہ چاروں صوبوں کو مساوی طور پرانتظامی ‘ معاشی اور سیاسی حقوق دیئے جائیں۔ اس سلسلے میں گزشتہ کالم میں‘ چھوٹے صوبوں کی طرف سے پیش کی جانیوالی تجاویز کے مطابق چاروں صوبوں میں نیچے سے اوپر تک وفاقی انتظامی نظام قائم کرنے کیلئے فوری طور پر چاروں صوبوں کی اس وقت منتخب سیاسی قیادت کے نمائندوں پر مشتمل ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بنائی جائے۔ اس سلسلے میں آئین میں ترمیم کی جائے‘ چھوٹے صوبوں کے ان حلقوں کے مطابق اب تک چھوٹے صوبوں کو انتظامی اور معاشی طور پر مرکز، بڑے صوبے کا دست نگربنادیا گیا ہے‘ اس وقت سارے معاشی معاملات پر فیصلے مرکز کرتا ہے‘ چھوٹے صوبے اس نظام کو مزید قبول کرنے کے لئے تیار نہیں‘ صوبہ سندھ کو خاص طور پر شکایت ہے کہ ان کے یہاں مرکز اور کچھ مخصوص ادارے سندھ کی زمینیں نیلام کررہے ہیں‘ سندھ کو شدید اعتراض ہے کہ مرکز کو اور کسی بڑے ادارے کو کیا حق پہنچتا ہے کہ اس کی زمینیں اور جائیدادیں نیلام کرے‘ اب تو مرکز ملک بھر کے اداروں کو نیلام کررہا ہے‘ کراچی میں قائم اسٹیل مل بڑے پیمانے پر لوہا تیار کرتی ہے جو ملک بھر میں مطلوب ہے‘ ملک بھر کے کئی اہم اداروں کو یا نیلام کیا جا چکا ہے یا کیا جانے والا ہے‘ ان اداروں کی فروخت کو پرائیویٹ یعنی نجی ملکیت میں دینے کا نام دیکر فروخت کیا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں متعلقہ اداروں سےاعداد و شمار آئے ہیں یا آرہے ہیں‘ اس دوران ایک یہ انتہائی اہم اعلان آیا ہے کہ کراچی ایئر پورٹ کو لیز پر دےدیا گیا ہے‘ بہرحال پرائیوٹائزیشن کے بارے میں وفاقی وزارت کی طرف سے آنے والی اطلاعات کے مطابق پی آئی اے کو پرائیوٹائز کرنے والے عمل کے تحت پری کوالیفائی کیا گیا ہے‘ یہ اطلاع پرائیوٹائزیشن کمیشن کے بورڈ کے اجلاس کے بعد آئی جس کی صدارت پرائیوٹائزیشن‘ انویسٹمنٹ اور کمیونی کیشن کمیشن کے وفاقی وزیر عبدالعلیم خان کررہے تھے۔ اسی دوران آنے والی اطلاعات کے مطابق جن اداروں کو پرائیوٹائز کیا جارہا ہے‘ ان کی لسٹ مندرجہ ذیل ہے۔ رئیل اسٹیٹ‘ سروسز انٹرنیشنل ہوٹل لاہور‘ جناح کنونشن سینٹر اسلام آباد‘ پی آئی اے‘ آئی ایل ( روز ویلٹ ہوٹل نیو یارک) وہ املاک جو یا وفاقی حکومت کی ملکیت ہیں یا وفاقی حکومت کے کنٹرول میں ہیں‘ ان کو بھی فروخت کیا جارہا ہے جن کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ ہوا بازی کا شعبہ‘ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کمپنی لمیٹڈ‘ مالی شعبہ پاکستان ری انشورنس کمپنی‘ اسٹیٹ لائف انشورنس کمپنی‘ ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن‘ فرسٹ وومن بینک لمیٹڈ‘ انڈسٹریل سیکٹر ‘ سندھ انجینئرنگ لمیٹڈ‘ پاکستان انجینئرنگ کمپنی‘ انرجی سیکٹر‘ ایم ڈبلیو بلوکی پاور پلانٹ‘ ایم ڈبلیو حویلی بہادر پاور پلانٹ‘ گڈو پاور پلانٹ (747MW) سینٹرل پاور جنریشن کمپنی لمیٹڈ (GENCO-II) نندی پور پاور پلانٹ‘ فیصل آباد الیکٹرک کمپنی‘ اسلام آباد الیکٹرک کمپنی‘ لاہور الیکٹرک کمپنی‘ گوجرانوالہ الیکٹرک کمپنی‘ ملتان الیکٹرک کمپنی‘ حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی‘ کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی‘ سکھر الیکٹرک کمپنی‘ ٹرائبل الیکٹرک سپلائی کمپنی اگر یہ سب الیکٹرک کمپنیاں فروخت ہورہی ہیں تو ملک کے پاس اپنی کون سی الیکٹرک کمپنی رہ جائے گی۔ مزید اطلاعات کے مطابق چند دیگر اداروں کو نجی شعبے کو دینے کی بات کی جارہی ہے‘ ان کے یہ نام سامنے آرہے ہیں‘ گینکو ون‘ گینکو ٹو‘ گینکو تھری‘ گینکو فور ۔اللہ پاک کی طرف سے جو قدرتی وسائل چھوٹے صوبوں کو عنایت کئے گئے تھے ان کا کیا حشر ہوا،پاکستان میں گیس سب سے پہلے صوبہ بلوچستان سے نکلی جسے سوئی گیس کہا جاتا ہے یہ بھی ایک اہم سوال ہے کہ بلوچستان سے نکلی ہوئی یہ گیس بلوچستان میں زیادہ استعمال ہوتی تھی یا کسی اور صوبے یا صوبوں میں استعمال ہوتی تھی ۔ وقت آگیا ہے کہ موجودہ حکومت ،جسے وفاقی حکومت کہا جاتا ہے جو حقیقت میںمرکزی حکومت کہلائی جاسکتی ہے ،سے مطالبہ کیا جائے کہ کچھ ممتاز ماہرین پر مشتمل ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بنائی جائے جو اس بات کی تحقیقات کرے کہ جب سے گیس بلوچستان سے نکلی اس کو فقط بلوچستان استعمال کرتا تھا یا کچھ اور صوبے یا کوئی خاص صوبہ سوئی گیس زیادہ استعمال کرتا تھا۔ تحقیقات کرنی چاہئے کہ اگر دوسرے صوبے یا کوئی ایک صوبہ یہ گیس زیادہ استعمال کرتا تھا تو کیا وہ صوبہ یا وہ صوبے یا مرکزی حکومت اس گیس کا معاوضہ بلوچستان کو ادا کرتے تھے‘ اسی طرح کی صورتحال سندھ میں تھی‘ سندھ میں کافی مقدار میںگیس نکلتی تھی مگر سندھ یہ گیس استعمال کرتا تھا اور دوسرا صوبہ یا صوبے یہ گیس کتنی مقدار میں استعمال کرتے تھے‘ یہاں سے بھی یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کیا سندھ کو بھی دوسرا صوبہ‘ دوسرے صوبے یا مرکزی حکومت کی طرف سے اس گیس کا معاوضہ کبھی ملا؟ تحقیقاتی کمیٹی سندھ کے حوالے سے بھی اس ایشو کی تحقیقات کرے۔ (جاری ہے)