وزیر اعظم شہباز شریف نے حال ہی میں ایکسپورٹرز اور امپورٹرز کو درپیش مسائل حل کرنے کیلئے شپنگ سیکٹرز کو ریگولیٹ کرنے کے لئے ریگولیٹری باڈی کی تشکیل کی ہدایت جاری کی ہیں۔ یہ فیصلہ اس لحاظ سے خوش آئند ہے کہ اس سے ایکسپورٹرز اور امپورٹرز کا دیرینہ مطالبہ پورا ہو جائے گا۔ اس حوالے سے پورٹس اینڈ شپنگ اور میری ٹائم کے وفاقی وزیر قیصر احمد شیخ کا کردار بھی قابل تعریف ہے جنہوں نے وزیر اعظم کی توجہ اس اہم ایشو کی طرف مبذول کروائی۔ اب انہیں کوشش کرنی چاہیے کہ جتنی جلدی ممکن ہو اس حوالے سے عملی اقدامات کو یقینی بنائیں۔ واضح رہے کہ پاکستان میں ایکسپورٹرز کو برآمدات میں اضافے کے حوالے سے جہاں دیگر مسائل کا سامنا ہے وہیں شپنگ کمپنیوں اور انکے ایجنٹوں کے خودساختہ قوانین اور غیر پروفیشنل رویہ بھی برآمدات بڑھانے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے ایکسپورٹرز کو جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ یہ ہے کہ ملک میں برآمدی اور درآمدی مصنوعات کی ترسیل کرنے والی شپنگ کمپنیوں کے نرخوں کا تعین کرنے کا کوئی میکنزم نہیں ہے جس کی وجہ سے درآمد و برآمد کنندگان کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اس سلسلے میں متعلقہ محکموں کی توجہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے حالانکہ اگر یہ مسئلہ حل ہو جائے اور ایک واضح میکنزم طے کر دیا جائے تو ایکسپورٹرز کا ایک بڑا سر درد ختم ہو سکتا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ شپنگ کمپنیوں نے بلا جواز چارجز بڑھا دیئے ہیں جس پر متعلقہ سرکاری محکمے اور حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ کنٹینر سکیورٹی چارجز کے ساتھ ساتھ کنٹینر ایڈوانس چارجز بھی وصول کئے جا رہے ہیں۔ ایکسپورٹرز کی یہ مجبوری ہے کہ اگر وہ یہ ادائیگی نہ کریں تو ناصرف ان کی شپمنٹس تاخیر کا شکار ہوں گی بلکہ انہیں اضافی پورٹ چارجز بھی ادا کرنا پڑیں گے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بیرون ملک سے پاکستان اور پاکستان سے بیرون ملک بھجوائے جانے والے مال کا زیادہ تر انحصار سمندر کے راستے ہونے والی تجارت پر ہے جس کا بنیادی ذریعہ کنٹینرز کی نقل وحمل کرنے والی غیر ملکی شپنگ کمپنیاں ہیں۔ اس شعبے میں غیر ملکی شپنگ لائنز کی اجارہ داری ہے جس کی وجہ سے یہ کمپنیاں اپنی مرضی کے ریٹس چارج کرتی ہیں اور درآمد کنندگان کو اضافی مالی بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ان شپنگ کمپنیوں کے ریٹس میں اتنا زیادہ فرق ہے کہ اگر ایک کمپنی ایک دن کے 20 ڈالر چارج کرتی ہے تو دوسری کمپنی 80 ڈالر یا بعض اوقات ایک دن کے 200 ڈالربھی چارج کرتی ہے۔ اس طرح درآمد کنندگان کو اپنا مال بروقت منگوانے کے لئے فی کنٹینر تقریبا 20 سے 30 لاکھ روپے کی اضافی ادائیگی ڈالرز میں کرنی پڑتی ہے حالانکہ ایک کنٹینر کی زیادہ سے زیادہ قیمت پانچ سے چھ لاکھ روپے بنتی ہے۔ اسی طرح بندرگاہ پر کلیئرنگ ٹرمینلز کی مینجمنٹ کے ٹھیکے بھی غیر ملکی کمپنیوں کے پاس ہیں جو فی کنٹینر کم از کم 70 ہزار روپے بطور چارجز وصول کرتی ہیں لیکن کراچی پورٹ ٹرسٹ کو اس کے مقابلے میں بالکل معمولی رقم ادا کرکے باقی رقم ڈالرز کی شکل میں بیرون ملک بھجوا دیتی ہیں۔ اس حوالے سے مزید افسوسناک بات یہ ہے کہ خطرناک اشیاء (Dangerous Goods) کے زمرے میں آنے والی اشیاء کو رکھنے کا ان کمپنیوں کے پاس کوئی انتظام موجود نہیں ہے لیکن یہ درآمد کنندگان سے اس مد میں اضافی چارجز ضرور وصول کرتی ہیں۔ علاوہ ازیں ہر شپنگ لائن والے 40 فٹ کنٹینر کے لئے کم از کم چار سے پانچ لاکھ روپے اور زیادہ سے زیادہ 15 لاکھ روپے سکیورٹی ڈپازٹ لے کر اپنے اکاونٹ میں جمع کروا دیتے ہیں۔ یہ رقم ایک ماہ سے زائد عرصے کے بعد واپسی کی جاتی ہے اور اسے بھی بینک میں رکھ کر اضافی منافع کمایا جاتا ہے۔ اسی طرح ڈی او چارجز کی مد میں فی کنٹینر 80 ہزار سے ڈیڑھ لاکھ روپے الگ سے لئے جاتے ہیں۔ حکومت کو یہ چاہیے کہ سکیورٹی ڈپاذٹ اور ڈی او چارجز لینے پر پابندی لگائے کیونکہ دنیا بھر میں کہیں بھی اس طرح نہیں ہوتا ہے۔ اس کی بجائے شپنگ کمپنیوں کو انشورنس چارجز لینے اور اس کے مطابق سروسز فراہم کرنے کا پابند بنایا جائے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ غیر ملکی شپنگ لائنز کو ریگولیٹ کرنے کے لئے ریگولیٹر کی عدم موجودگی کے باعث درآمد و برآمد کنندگان کو اپنی شکایات کے ازالے کے لئے ایک سے دوسرے محکمے کے دفاتر میں چکر لگانے پڑتے ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اگرچہ ان کمپنیوں کو لائسنس محکمہ کسٹم جاری کرتا ہے جبکہ آپریشنل معاملات’’میری ٹائم‘‘والے دیکھتے ہیں لیکن ان کے ریٹس کا تعین کرنے کا اختیار کسی محکمے کے پاس نہیں ہے۔ اسی لئے ان کمپنیوں کا مقامی عملہ اور ایجنٹ بھی یہ کہہ کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں کہ بیرون ملک موجود ان کے پرنسپل نے جو ریٹ طے کر دیا ہے وہ اس سے کم چارجز نہیں لے سکتے ۔ اسلئے اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت شپنگ لائنز کو ریگولیٹ کرنے کیلئے ریگولیٹری اتھارٹی بنانے کیساتھ ساتھ اس شعبے میں غیر ملکی کمپنیوں کی اجارہ داری کو ختم کرنے کیلئے ملک میں نئی شپنگ کمپنیوں کے قیام کی راہ ہموار کرے۔ یہ اقدامات اس لئے بھی ضروری ہیں کہ سی پیک پراجیکٹ کے تحت آنے والے وقت میں اس روٹ سے عالمی تجارت میں قابل ذکر اضافے کی توقع ہے۔ ایسے میں اگر ہم بروقت اس شعبے میں اپنے قدم جما لیں گے تو اس سے جہاں مقامی لوگوں کیلئے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے وہیں درآمدی و برآمدی سامان کی ترسیل میں سہولت سے صنعتی و کاروباری طبقے کو بھی فائدہ ہو گا۔