• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برآمدات سے زیادہ ترسیلاتِ زر میں ترقی ہے، باہر سے پاکستانی مزید رقوم بھیجیں: عارف حبیب


معروف صنعت کار و چیئرمین عارف حبیب گروپ عارف حبیب کا کہنا ہے کہ سیاست دان تو ناکام ہو چکے ہیں، وہ اصلاحات پر فیصلہ نہیں کر پاتے، معاشی استحکام ترجیح ہونی چاہیے، روپے کی قدر میں استحکام سے مہنگائی کم ہوئی، برآمدات سے زیادہ ترسیلاتِ زر میں ترقی ہے، بیرونِ ملک مقیم پاکستانی مزید رقوم بھیجیں۔

’معیشت سنبھالنے کا آخری موقع، کیا ہے پاکستانی معیشت کے سنگین مسائل کا حل؟ کیا کہتے ہیں معاشی ماہرین اور اہم کاروباری افراد؟‘ کے موضوع پر ’جیو نیوز‘ کی ’گریٹ ڈیبیٹ‘ میں عارف حبیب نے کہا کہ زرعی ٹیکس کے ذریعے 1200 ارب روپے جمع ہو سکتے ہیں، زرعی ٹیکس کے ذریعے دیگر شعبوں کو ریلیف دینا جانا چاہیے۔

ان کا کہنا ہے کہ صدرِ مملکت بھی کہہ چکے ہیں کہ بڑے زمینداروں کو ٹیکس دینا ہو گا، سمجھتا ہوں کہ صوبے زرعی ٹیکس پر مان جائیں تو بڑی کامیابی ہو گی، ریٹیلرز ٹیکس جمع کرنے کا معاملہ مینوفیکچررز پر ڈال دیا ہے، تنخواہ دار پر مزید بوجھ ڈال دیا گیا ہے، برآمدات سے زیادہ ترسیلاتِ زر میں ترقی دکھائی دے رہی ہے، بیرونِ ملک مقیم پاکستانی مزید رقوم بھیجیں۔

عارف حبیب نے کہا کہ لوگ اگر باہر جا رہے ہیں تو جانے دیں، حالات یہاں بہتر ہوں گے تو وہ واپس آ جائیں گے، لوگ باہر جا کر زیادہ سے زیادہ ترسیلاتِ زر بھیجیں، حکومت کو چاہیے کہ یہاں مواقع پیدا کرے، بیرونی سرمایہ کاری فائدہ مند نہیں۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ میں میکرو اکنامکس استحکام کے اچھے اقدامات ہیں، آئی ایم ایف کے مطالبات پورے کیے گئے ہیں، گزشتہ سال 500 ارب روپے پی ایس ڈی پی تھا، اس بار 1150 ارب روپے ہیں، شرحِ سود میں کمی سے ایکسپورٹ انڈسٹری کی لاگت میں کمی آئے گی، انرجی کی قیمت بڑھ گئی ہے، گروتھ کے لیے انرجی کی قیمت، شرحِ سود اور ٹیکسوں میں کمی ضروری ہے، یہ 3 اقدامات کیے بغیر ہماری ایکسپورٹ انڈسٹری دیگر ملکوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی، اچھی بات یہ ہے کہ شرحِ سود میں کمی ہوتی نظر آ رہی ہے۔

سی ای او و ایم ڈی سسٹمز لمیٹڈ آصف پیر نے کہا کہ ترقی کی بات ہی اہم ہے، آئی ٹی کے شعبے میں بہت مواقع ہیں، باہر جانے والے کو نہیں روک سکتے، جو یہاں رہنا چاہتے ہیں انہیں بھی باہر جانے پر مجبور کیا جا رہا ہے، مڈل مینجمنٹ ہماری ریڑھ کی ہڈی ہے اور انہیں ہمیں اعتماد دینا ہے، امن وامان بہت اہم ہے، ڈیٹا کی حفاظت، سائبر سیکیورٹی، بجلی کی ترسیل یہ سب اہم ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ یہاں ٹو جی تھری جی کی اب تک بات ہوتی ہے لیکن دنیا بہت آگے نکل چکی ہے، کئی عوامل کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری تو نہیں ہو رہی، ہمسائے ملک میں حالات دیکھیں کہ بڑی بڑی عالمی کمپنیز پیسہ لگا رہی ہیں، فلپائن میں کال سینٹر کی مارکیٹ 40 ارب ڈالرز کی ہے، فراڈ پروٹیکشن کے قوانین ہی نہیں، ڈیٹا پروٹیکشن کا کوئی خاکہ نہیں، ہمیں بیرونِ ملک پاکستان کا اچھا امیج بنانا ہے، ایچ آر پر لاگت ابھی بھی بہت کم ہے، ڈیجیٹل معیشت کو ترقی دینی ہو گی۔

آصف پیر نے کہا کہ حکومت نے آئی ٹی ایکسپورٹ میں اضافے کے لیے اچھے اقدامات کیے ہیں، ٹیکس سلیب بڑھنے کے بعد لوگ کیش میں تنخواہیں لینے، 2 اکاؤنٹس میں تنخواہیں لینے کے راستے ڈھونڈیں گے۔

لکی سیمنٹ کے سی ای او محمد علی ٹبا نے کہا کہ حکومت 20 سال سے ہمیشہ کامرس چیمبرز کی تجویز سے برعکس کام کرتی ہے، تنخواہ داروں پر ٹیکس کا مزید بوجھ کا اس کے سوا کوئی مطلب نہیں کہ ہنر مند ملک سے ہجرت کر جائیں، کرنٹ اکائونٹ خسارے میں کمی کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا ہے، لوگوں کی خرچ کرنے کی سکت بہت کم ہوگئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ انڈسٹری کو خدشہ ہے کہ بجٹ فیصلوں سے ہماری ایکسپورٹ 30 ارب ڈالرز سے نیچے آجائیں گی، جتنے ٹیکسز لگا دیے گئے ہیں، اس سے شرحِ نمو پر منفی اثر پڑے گا۔

چیف ایگزیکٹو پاکستان بزنس کونسل احسان ملک نے کہا کہ یہ بجٹ آئی ایم ایف پروگرام کو حاصل کرنے کے لیے بنایا گیا ہے، یہ صرف فائر فائٹنگ بجٹ ہے، اس بجٹ سے معاشی صورتِ حال میں کوئی بہتری نہیں آئے گی، بدقسمتی سے ہمارے سیاستدان اور بیوروکریٹس ویلتھ کری ایشن کو گناہ سمجھتے ہیں، بجٹ سے قیمتوں میں جو فرق آیا ہے اس سے مہنگائی میں اضافے کی شرح 18 سے 20 فیصد رہے گی، شرحِ سود میں کمی کی جو توقع کی جا رہی تھی، وہ مہنگائی کی وجہ سے اتنی کم نہیں ہو گی۔

ایف پی سی سی آئی کے نائب صدر آصف انعام نے کہا کہ بجلی کی قیمتوں کا مسئلہ بہت بڑا ہے، 70 فیصد مسائل تو بجلی کی قیمتوں سے ہی پیدا ہوئے ہیں، بجٹ کے بعد مسائل مزید بڑھے ہیں، پی ایس ڈی پی کے ذریعے بجلی کے منصوبے لگانے ہوں گے، کیوں نئے ڈیمز نہیں بنائے جا رہے؟آئی پی پیز سے تو مسئلے بڑھے ہیں۔

ٹاپ لائن سیکورٹیز کے سی ای او محمد سہیل نے کہا کہ آئی ایم ایف کی چھتری کے تحت بجٹ بنایا گیا ہے، بجٹ کی سمت تو درست ہے لیکن ٹیکس کے نفاذ پر سوال ہیں، تین چار سال بعد بہتری ہو گی چیلنج یہ ہے کہ آپ کو ڈیفالٹ سے بچنا ہے، ہدف یہ ہو کہ زرِ مبادلہ کے ذخائر 25 ارب ڈالرز تک پہنچ جائیں، آئی ایم ایف پروگرام ہماری مجبوری ہے۔

ماہرِ معیشت عمار حبیب خان نے کہا کہ آبادی کو دیکھتے ہوئے معاشی ترقی 6-5 فیصد ہونی چاہیے، 99 فیصد معیشت کھپت پر منحصر ہے، 29 فیصد کارپوریٹ ٹیکس پر سرمایہ کاری نہیں ہو گی، سرمایہ کاری کو مدِنظر رکھتے ہوئے بجٹ بنانا چاہیے، 9 ٹریلین روپے زیرِ گردش ہیں، ڈیجیٹل معیشت کی بات بہت ہوتی ہے لیکن انفارمل معیشت کو ترقی دی جاتی ہے، بہتری تو دکھائی نہیں دیتی، مقامی سرمایہ کاری بھی بہت اہم ہوتی ہے، پورا ملک ہی سرکاری وارنٹی پر چل رہا ہے، مارکیٹ تو کوئی سمت نہیں دے رہی، فری لانسر تو بینک اکاؤنٹ نہیں کھلوا سکتا، پیسہ باہر ہی رکھا جاتا ہے۔

تجارتی خبریں سے مزید