افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آتے ہی پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ ہوا۔ شروع میں تحریکِ طالبان پاکستان نے ذمہ داری قبول کی۔ پاکستان نے افغان طالبان پر دبائو بڑھایا توٹی ٹی پی نے دہشت گردی کی وارداتوں سے لاتعلقی کا اعلان کرنا شروع کر دیا۔ جیسے داسو ڈیم پر کام کرنے والے چینی انجینئر پر حملے کی ذمہ داری کسی بھی شدت پسند گروپ نے قبول نہیں کی مگر کالعدم ٹی ٹی پی کے سربراہ نور ولی محسود کی خفیہ کال کےمنظرِ عام پر آنے سے معاملات خاصے گھمبیر ہو گئے ہیں یعنی اس بات کا ثبوت مل گیا ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان خیبر پختونخوا کے حالات خراب کرنے میں پوری طرح ملوث ہے۔ کال میں وہ پاکستان میں امن و امان کی صورتحال کو خراب کرنے کی ہدایات دیتے ہوئے کہہ رہاہے کہ ”سیکورٹی فورسز ہمارے گھر مسمار کر رہی ہیں تو ہم بھی سکول، ہسپتال اور سرکاری املاک کو مسمار کریں گے، سکولوں ہسپتالوں کو دھماکے سے اڑا دو۔ پولیس اور فوجیوں کے گھروں کو مسمار کرو مگر میرا نام نہیں آنا چاہئے تاکہ مقامی لوگوں میں ٹی ٹی پی کے لئے نفرت پیدا نہ ہو۔‘‘
بنوں میں حالات کی خرابی میں یقیناً ٹی ٹی پی کا ہاتھ ہے مگر اس کےساتھ قصور وار ہم بھی ہیں کہ ہم دہشت گردوں کی جنگ میں عوام کی حفاظت نہیں کر سکے ،بلکہ عوام کو بھی اپنے خلاف کر بیٹھے ہیں، یقیناً یہ بھی دہشت گردوں کی کامیابی ہے۔ ٹی ٹی پی کا موجودہ سربراہ خاصا زیرک آدمی ہے۔ اس نے بڑے طریقے سے جال بچھایا ہے اور اپنے مقصد میں کامیاب رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ٹی ٹی پی کے لوگ امن مارچ میں شامل ہو گئے اور انہوں نے چھائونی میں پہلے فوجیوں پر فائرنگ کی اور غائب ہو گئے۔
نور ولی محسود ٹی ٹی پی کا سربراہ بننے سے پہلے افغان طالبان کی مجلس شوریٰ کا ممبر تھا۔ یعنی موجودہ افغان حکومت کی سرکردہ شخصیت تھا اور اب بھی ہے۔ اسے ٹی ٹی پی کا سربراہ بھی افغان طالبان نے بنوایا تھا۔ یعنی اس وقت بھی اس کی پشت پر افغان حکومت ہے۔ وہ ایک پڑھا لکھا شخص ہے اس نے مذہبی تعلیم فیصل آباد کے جامعہ امدادیہ، جامعہ حتیمیہ اور جامعہ فاروقیہ سے حاصل کی۔ وہ گجرانوالہ کے جامعہ نصرت العلوم اور کراچی کے جامعہ احسن العلوم اور جامعہ یاسین القران میں بھی پڑھتا رہا ہے۔ اس نے جنوبی وزیرستان کے مدرسہ امداد العلوم میں دو سال بطور استاد پڑھایا بھی ہے یعنی وہ پوری طرح ہم پاکستانیوں کا مزاج آشنا ہے۔ خاص طور خیبر پختونخوا کےلوگوں کی سائیکی سمجھتا ہے۔ اس نے چھ سات سو صفحات پر مشتمل ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ جس کا نام ہے ’’انقلاب ِ محسود، فرنگی راج سے امریکی سامراج تک‘‘۔ اس کتاب میں اس نے بڑے بڑے اعتراف کیے ہیں۔ اس کتاب میں پہلی مرتبہ تحریکِ طالبان پاکستان کی جانب سے محترمہ بےنظیر بھٹو پر کارساز، کراچی اور راولپنڈی میں حملوں کی بھی ذمہ داری قبول کی گئی ہے۔ اس سے پہلے طالبان ان دونوں حملوں سے انکار کرتے رہے ہیں۔ تحریک کے اخراجات پورے کرنے کیلئے ڈاکہ زنی، بھتہ خوری، اجرتی قتال اور تاوان جیسی کارروائیوں کا بھی اقرار کیا۔ انڈیا سے فنڈنگ لینے کی بات نہیں کی مگر یہ ضرور لکھا ہے کہ بیت اللہ محسود کے دور میں 2006میں ایک دن ان کے نائب حکیم اللہ کے ساتھ گاڑی میں سفر کے دوران میران شاہ بازار میں ایک قریب سے گزرتے شخص نے حکیم اللہ کی جھولی میں ایک پلاسٹک بیگ پھینکا اور آگے نکل گیا۔ حکیم اللہ نے وہ لفافہ مجھے دکھایا جس میں بقول اس کے پانچ لاکھ روپے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’دیکھو اللہ ہماری مدد اس طرح کرتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم یہ کون شخص تھا لیکن وہ یہ پیسے ہمیں دے گیا ہے۔‘ بعد میں بیت اللہ نے ان پیسوں سے ایک نئی فور بائی فور گاڑی کا آرڈر دیا اور بقیہ پیسے انتظامی امور کیلئے رکھ دیئے۔ سننے میں آیا ہے اتنے بڑے بڑے اعترافات کے باوجود آج تک پاکستان نے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی کیونکہ افغان طالبان نے اس کی ضمانت دی تھی، وگرنہ اسے پکڑنا کوئی اتنا مشکل کام نہیں تھا۔
امریکہ نے تقریباً چار پانچ سال پہلے مفتی نور ولی کا نام عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا۔ اس کا شمار ٹی ٹی پی کے سابق امیر بیت اللہ محسود کے خاص کمانڈروں میں ہوتا تھا۔ ڈپٹی کمانڈر بھی رہ چکا ہے۔ ٹی ٹی پی کی بنائی گئی عدالت کے جج کے طور پر بھی کام کرتا رہا ہے۔ دو ہزار تیرہ میں ٹی ٹی پی کراچی کا امیر منتخب کیا گیا اس کے بعد وہ ٹی ٹی پی سے الگ ہونے والے محسود گروپ کے امیر خالد سعید سجنا کے ساتھ بطور نائب کام کرتا رہا۔ دو ہزار اٹھارہ میں ملا فضل اللہ کی موت کے بعد اسے ٹی ٹی پی کا امیر منتخب کیا گیا۔ اپنی کتاب میں تو اس نے لکھا ہے کہ ’حقیقی جہاد‘ افغانستان میں امریکی فورسز کے خلاف ہے اور پاکستان کے قبائلی علاقوں کو اسی ’جہاد‘ کیلئے بطور بیس کیمپ استعمال کیا جا رہا ہے مگر یہ فون کال چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ پاکستان میں ہونے والی موجودہ دہشت گردی ٹی ٹی پی ہی کرا رہی ہے۔ بنوں میں بدامنی پھیلانے کے پیچھے بھی یہی عناصرِ ملوث ہیں۔ حکومت پاکستان کو فوری طور پر اس ٹیلیفونک کال کا فرانزک ٹیسٹ کروا کر ذمہ داران کو قانونی شکنجے میں لانا چاہیے اور بنوں کے واقعات کی غیر جانب دارانہ تفتیش کرکے مجرموں کو سزا سنائی جائے تاکہ عوام اور افواج پاکستان کو آپس میں لڑانے کی سازشیں ناکام ہوں۔