• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر شریف آدمی کی طرح میری بھی طویل پروازوں سے بہت جان جاتی ہے، بندہ نہ کسی سٹیشن پر رک کر نان پکوڑے کھا سکتا ہے اور نہ کسی ڈھابے پر بریک لگا کر چائے پی سکتا ہے، ایسی فلائٹ میں نازنینائیں بھی صرف پروفیشنل سفر نامہ نگاروں کے حصے میں آتی ہیں جن کے کندھے کے ساتھ سر ٹکا کر وہ باآسانی سو جاتی ہیں اور منزل مقصود تک پہنچتے پہنچتے اُن پر فریفتہ ہو چکی ہوتی ہیں۔ اپنی پیرس سے کیلگری کی پرواز نو گھنٹے کی تھی اور حال یہ تھا کہ بیٹھے رہو دم سادھے اور زہر مار کرتے رہو ٹھنڈی کافی، نام نہاد چائے اور پاستہ، جس کے بارے میں میرا خیال ہے کہ اگر دنیا کے بہترین شیف نے بھی بنایا ہو تو اسی صورت میں کھایا جا سکتا ہے کہ اگر آپ کسی جزیرے پر تنہا ہوں اور وہاں پاستے کے بعد کھانے کا بہترین آپشن گھاس پھونس اور پتے ہوں۔ خدا خدا کر کے نو گھنٹے بعد جہاز اترا تو کچھ ہوش آیا۔ کیلگری کا ہوائی اڈہ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہاں خود کار مشین آپ کی امیگریشن کرتی ہے۔ ہم نے اپنا پاسپورٹ مشین میں ڈالا، مشین نے دو چار سوالات پوچھے اور کھٹ سے ہمارے ہاتھ میں ایک پرچی تھما دی۔ سامنے دو چار لونڈے کھڑے تھے، ان میں سے ایک کراچی کا نکل آیا اس نے وہ پرچی دیکھی، حال احوال پوچھا اور پاسپورٹ واپس کر کے کہا، کینیڈا میں خوش آمدید۔ میں نے اس سے پہلے کوئی ہوائی اڈہ ایسا نہیں دیکھا تھا جہاں یوں امیگریشن کا عمل ہوتا ہو۔

پہلی نظر میں ہمیں کیلگری کچھ خاص پسند نہیں آیا، دھوپ نکلی ہوئی تھی، موسم خوشگوار تھا مگر فضا میں کچھ کچھ دیسی ٹچ تھا۔ اس کے مقابلے میں یورپ اور برطانیہ میں فضا بہت مختلف ہوتی ہے، شاید بارش نہ ہونے کے سبب کیلگری میں وہ اُجلا پن نظر نہیں آیا جس کی ہم امید کر رہے تھے۔ ڈاؤن ٹاؤن میں چند بلند و بالا عمارتیں تھیں اور کچھ شاپنگ مالز، جن میں کوئی جدت یا انفرادیت ہمیں نظر نہیں آئی، البتہ پورے شہر میں میلے کا سماں تھا اور اس کی وجہ کیکگری کا مشہور زمانہ Stampede کا تہوار تھا جو وہاں جاری تھا۔ ہر شخص ہیٹ اور لانگ شوز پہن کر کاو بوائے بنا پھر رہا تھا، کوئی مرد، عورت، بچہ، بوڑھا، جوان ہم نے ایسا نہیں دیکھا جس نے یہ روپ نہ دھارا ہو اور تو اور جو خواتین کیکگری ہوائی اڈے کے باہر مسافروں کی رہنمائی پر مامور تھیں وہ بھی کاو بوائے کے لباس میں تھیں۔ کیلگری کے سٹیمپیڈ سٹیشن کے آس پاس کے علاقے میں سٹیڈیم ہے جہاں میلہ سا لگا ہوتا ہے، کاو بوائے کے مخصوص کھیلوں کے مقابلے ہوتے ہیں، شہر کی انتظامیہ اس میلے کی خوشی میں مقامی ٹرین کے کرایوں میں کمی کر دیتی ہے مگر ہوٹلوں کے کرائے آسمان پر چلے جاتے ہیں۔ کیلگری میں پھرتے ہوئے آپ کو یوں لگتا ہے جیسے آپ متحدہ پنجاب میں پھر رہے ہوں، کوئی لدھیانے کا مل جاتا ہے تو کوئی نارووال کا، آپ کسی سے بھی بلا تکان اردو یا پنجابی میں بات کر سکتے ہیں۔

جیسا کہ آپ پچھلے باب میں پڑھ آئے ہیں کہ کیلگری شہر کی اپنی کوئی خوبصورتی نہیں، تاہم جونہی آپ کیلگری سے باہر نکلتے ہیں، قدرتی مناظر کی خوبصورتی شروع ہو جاتی ہے اور بینف پہنچ کر تو بندہ عش عش کر اٹھتا ہے۔ یہ ایسا ٹاؤن ہے جیسا عموما ً فلموں میں دکھایا جاتا ہے، چاروں جانب سے پہاڑوں میں گھرا ہوا، کہیں آبشار گر رہی ہے تو کہیں جھرنے۔ شہر میں داخل ہوتے ہی احساس ہوتا ہے کہ اگر سیاحوں کیلئے ایک آئیڈیل جگہ بنانی ہو تو وہ ایسی ہوگی۔ بینف میں چلنے والی بسیں سیاحوں کو آس پاس کے خوبصورت مقامات تک لے جاتی ہیں، ہر بات کی رہنمائی کیلئے جگہ جگہ نقشے اور سمت کے نشان لگے ہیں، شہر کی ٹرانسپورٹ ایپ کے ذریعے بھی آپ معلومات لے سکتے ہیں۔ یہ سب باتیں ہم جیسے لوگوں کو بہت متاثر کرتی ہیں کیونکہ ہم تو ایسی ٹورازم کے عادی ہیں جس میں بندہ سینہ گزٹ کے ذریعے سفر کرتا ہے۔ ’’بھائی صاحب، بابو سر ٹاپ کھلا ہو گا...جی جی بالکل کھلا ہو گا، بے فکر کر جائیں...لینڈ سلائڈنگ کی وجہ سڑک بند ہو گئی، سیاح بابو سر ٹاپ پہ پھنس گئے‘‘ لیکن سچ یہ ہے کہ اب ہمارے ہاں بھی سیاحت خاصی بہتر ہوگئی ہے تاہم کینیڈا کا مقابلہ ہم نہیں کر سکتے۔

شہر کا مرکزی علاقہ مری کی مال روڈ جیسا ہے، البتہ یہاں کوئی وی آئی پی کمروں اور گرم ٹھنڈے پانی کی آوازیں نہیں لگاتا۔ آپ یہاں صرف واک کر سکتے ہیں، گاڑی لانے کی اجازت نہیں تاہم سیاحوں کیلئے سرکاری بسیں ضرور چلتی ہیں۔ آپ سڑک کے کنارے بیٹھ کر کھانا کھا سکتے ہیں اور آپ کے قریب سے بس گزر جائے گی، پتا ہی نہیں چلے گا۔ ماحول میں کوئی شور نہیں فضا میں کوئی آلودگی نہیں۔ اس ٹاؤن نے مجھے سوئٹزر لینڈ کے شہر زرمت کی یاد دلا دی، وہ بھی کچھ ایسا ہی تھا، جتنی اُس شہر کی آبادی تھی اُس سے زیادہ وہاں ہوٹل تھے اور سیاح جوق در جوق امڈتے آتے تھے۔ بینف اور زرمت جیسے شہر ہم مری، کاغان اور سکردو کے مضافات میں بسا سکتے ہیں مگر اس کیلئے وسائل اور حکومت کی بھرپور سرپرستی چاہیے، کوئی ایک افسر یا سیاحت کا محکمہ یہ کام نہیں کر سکتا۔ لیکن ہم بھی کیا کریں، سیاحتی شہر بسائیں یا پہلے سے موجود شہروں کو محفوظ بنائیں۔ جن ممالک میں بینف یا زرمت جیسے شہر ہوتے ہیں وہاں کوئی ڈیرہ اسماعیل خان نہیں ہوتا جہاں کے مرکز صحت میں دہشت گرد گھس کر عورتوں اور بچوں کو قتل کر دیں۔ ہم لکھاری لوگ مشورے بہت دیتے ہیں کہ ملک میں ٹورازم کو فروغ کیسے دیا جا سکتا ہے مگر یہ فراموش کر بیٹھتے ہیںکہ جس ملک میں دہشت گرد گھوم رہے ہوں وہاں غیر ملکی سیاح نہیں گھوم سکتے۔ بینف میں چھوٹے چھوٹے بچے سر پر ہیلمٹ پہن کر سائیکلیں چلا رہے تھے، جگہ جگہ نشانات لگے تھے کہ یہاں زمین گیلی ہے دھیان سے قدم رکھیں، اگر کوئی جگہ دو چار انچ نا ہموار تھی تو وہاں بھی جلی حروف میں تنبیہ درج تھی کہ احتیاط سے چلیں مبادا آپ گِر جائیں۔ یہ انسانی زندگی کی قدر و قیمت ہے جس نے اِن ممالک میں وہ ماحول بنا رکھا ہے کہ لوگ یہاں کھنچے چلے آتے ہیں ۔

ہم پہاڑوں کے درمیان کھڑے تھے، سامنے آبشار بہہ رہی تھی، آسمان صاف تھا اور دھوپ نکلی ہوئی تھی، ہم نے چند تصویریں بنائیں اور بینف کے مرکزی علاقے میں واپس جانے کیلئے بس کا انتظار کرنے کی بجائے ایک سردار جی سے لفٹ لے لی۔ یہ چھبیس ستائیس سال کا ایک خوبرو نوجوان تھا جو چند سال پہلے ہی یہاں منتقل ہوا تھا۔ اُس کا دل مگر ’امبرسر‘ میں تھا۔ جیسے ہمارا دل لاہور میں۔

تازہ ترین