• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ماہ مارچ کے یہی دن تھے جب سابقہ مشرقی بنگال کے حق مانگنے پر ہم اس پر چڑھ دوڑے تھے۔ ارض بنگال کی ساتوں ندیاں سینہ چاکان مشرق کے خون سے بہہ نکلی تھیں۔ پھر کیا ہوا؟ وہی جو شاعر راشد ارشد نے کہا:
بنگالی آزاد ہوئے اور غازی جیل سدھائے۔
لیکن حکمرانوں کو زعم تھا اور نشہ تھا اپنی حکمرانی اور طاقت کا۔ حکمران تو کیا، چاہے فوجی چاہے سول۔ خود ہم سب سابقہ مغربی پاکستانی خود کو مشرقی پاکستانیوں کے آقا اور ان کی دھرتی کے وسائل کے مالک سمجھتے تھے۔ جیسے آج بلوچستان کی گیس کو ہم سب غیر بلوچستانی اپنی ملکیت تصور کرتے ہيں اور بلوچوں کے آقایا نام نہاد بڑے بھائی۔
ہم نے تاریخ سے کیا سبق سیکھا۔ خون میں ڈوبے ہوئے تاریخ کے پنوں سے کیا سبق سیکھا۔ وہ جو سارے راستے ڈھاکہ کو جاتے تھے ہم آج بھی خون سے رنگ رہے ہیں۔کچھ سبق نہیں سیکھا۔ بھائی لوگوں کو کہتے سنا کہ مشرقی پاکستان تو ایک ہزار میل دور تھا۔ بیچ میں سمندر تھا اور پھر بھارتی سازشیں تھیں، گندی انگلی کاٹی جانا بھلی۔ ملک دو لخت ہوگیا۔ بقول بھٹو کے جناح کا پاکستان ختم ہوا اب قائد عوام کا پاکستان شروع۔حمود الرحمٰن کمیشن بنا کسی جرنیل کرنیل کو باوجود کمیشن کی سفارشات کے سزا نہ آئی بلکہ ان میں کئی باقیماندہ صوبوں کے گورنر بنے۔ مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے اور ایک سابق کرنل فوج کے سربراہ بھی بنے کہ وہ سایوں کے تعاقب کے عادی نہیں تھے۔لیکن بغیر نمبر پلیٹ کے کالے شیشوں والی سفید ڈبل کیبنوں پر سوار اجل کے گھوڑے سواروں نے اپنا سفر جاری رکھا۔ ڈھاکہ ایک ہزار ناٹ میل کے مفاصلے پر تھا تو کیا ہوا اب بھی تو باقیماندہ ملک پر دو ہزار میلوں سے حکومت کی جا رہی ہے۔ کیا سندھ اور بلوچستان کو واقعی سندھ اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ چلا رہے ہیں؟ مسخ شدہ لاشیں بھیجنے کا عمل جاری ہے۔کیا یہ سب کچھ ایک بیچارے نائب صوبیدار کا کام ہوتا ہے۔ یہ جو ملکی جیلوں اور عدلیہ کے متوازی ایک اور جیلوں اور جہان خانی نظام انصاف چلایا جا رہا ہے۔ یہ محض ایک نائب صوبیدار کے بس کی بات ہے؟
ابھی پچھلے ہفتے سندھ کو سندھ کی قوم پرست جماعت جسقم یا جئے سندھ قومی محاذ کے مقتول سابق صدر بشیر قریشی کے اکلوتے اور چھوٹے بھائی اور اس کے ساتھی سلمان ودھو کی جلی ہوئی لاشیں پھینک دی گئیں۔ صرف جسقم کی طرف سے کراچی میں اس کے آزادی مارچ یا فریڈیم مارچ کے دو دن قبل۔ سو فی صد جلی ہوئی لاشیں ۔ دونوں مقتولین کی پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹروں نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ دونوں کو جلانے سے پہلے گولیاں ماری گئی تھیں ان کی لاشیں اس قدر جلا دی گئیں کہ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ان کو کتنے قریب یا دور سے کس ساخت کے ہتھیار سے قتل کیاگیا! بقول شاعرہ اور خواتین جدوجہد کی سرگرم کارکن امرسندھو کے راکھ کی دو گٹھڑیوں کی صورت۔ مقصود قریشی جو کہ نہ تو کسی سیاسی پارٹی کا رکن تھا نہ کہ بھتہ خور قاتل اور غیر ملکی جاسوس و ایجنٹ۔ نہ اس کی کسی سے دشمنی تھی۔ اس کے ساتھ قتل ہونے والا اس کا دوسرا جواں سال ساتھی سلمان ودھو جئے سندھ میں بچوں کی تنظیم لطیف سنگت کا رہنما تھا۔ مقصود کم عمر بچوں کا باپ اور قریشی خاندان کا واحد کفیل تھا۔ وہ فقط اس وقت عوامی منظر عام پر آیا تھا جب اس کا بڑا بھائی بشیر قریشی جیل میں ہوتا اور وہ اس کے مقدمے میں تھانے کچہریاں بھگتتا رہتا یا پھر بشیر قریشی کے قتل کے بعد وہ اپنے بھائی کے قتل میں انصاف حاصل کرنے میدان میں نکلا تھا۔ مقصود قریشی اور ان کے ساتھی کو ان کی کار سمیت مبینہ طور پر دادو ضلع کی حدود سے اغوا کر کے نوشہرو فیروز ضلع کے شہر بھریا روڈ پکا چانگ لنک روڈ پر پہلے گولیاں مار کر قتل کیا گیا اور پھر ان کو ان کی ہی کار میں ڈال کر کار کو آگ لگا دی گئی جس سے ان کی لاشیں سو فی صد جل گئيں۔ ڈی آئی جی سکھر نے ایک سندھی ٹی وی چینل کے نمائندے کو بتایا کہ کار میں ڈرائیور کے ساتھ والی مسافر نشست پر ایک لاش اور ایک لاش پچھلی نشست پر پڑی ملی جس سے لگتا ہے کہ مقصود قریشی اور سلمان ودھو کو کسی تیسرے شخص نے زبردستی یا پھر کسی گروپ نے ان کی کار کا پیچھا کر کے ان کو اغوا کیااور بھریا روڈ لاکر قتل کیا اور پھر انہیں ان کی کار میں ڈال کر آگ لگادی۔ڈی آئی جی نے یہ بھی کہا کہ ان دونوں قوم پرست کارکنوں کو قتل کرنے کا مقصد کسی کو سبق سکھانا بھی ہو سکتا ہے۔ مجھے جسقم کے نیویارک میں ایک رہنما نے بتایا کہ ایک ماہ قبل لاڑکانہ سے غائب جئے سندھ متحدہ محاذ کے کارکن عباسی نوجوان کو رہا کرتے وقت ریاستی اغوا کاروں نے کہا تھا کہ وہ ان کو (سندھی قوم پرستوں کو) مارچ میں ایک تحفہ دینے والے ہیں یعنی لاشوں کے تحفے اس سے قبل وہ اسی جگہ جئے سندھ متحدہ محاذ کے ایک کارکن صاحب خان گھوٹو کی مسخ شدہ لاش پھینک چکے ہیں۔ سانگھڑ میں اسی تنظیم جئے سندھ متحدہ کے کارکنوں کو اسی طرح قتل کر کے ان کو ان کی کار سمیت جلا چکے ہیں۔ نوجوان افضل پنہور کو جعلی مقابلے میں ہلاک کر چکے ہیں۔ دو نوجوان جسمم کارکنوں کو دادو سے اٹھا کر ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینک چکے ہیں۔رپورٹوں کے مطابق مقصود قریشی اور سلمان ودھو کے دہرے قتل اور ان کی لاشوں کو جلا دینے کی وارداتوں کے ایک دن بعد دیگر تین نوجوانوں کی لاشیں سپر ہائے وے سے ملیں جن کی شناخت متحدہ قومی موومنٹ کے کراچی سے تین غائب شدہ کارکنوں عبدالجبار، شمشاد حیدر اور یاور عباس کے طور پر کی گئی۔ اب اور رینجرز کو کتنے اختیار چاہئیں۔ وہی حبیب جالب والی بات
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گمان تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
لاکھوں کی تعداد کے اس مارچ کو میڈیا میں بالکل پذیرائی نہیں ملی بالکل ایسے جیسے اس وقت کے میڈیا نے انیس سو اکہتر میں پلٹن میدان کے اجتماعات اور اس کے بعد کی وسیع خونی وارداتوں اور بنگالی نسل کشی کو بلیک آئوٹ کیا جیسے اس نے ماما قدیر کے لانگ مارچ کو بلیک آئوٹ کئے رکھا۔ مقصود قریشی کے قتل پر مجھے میرے ایک ہزارہ دوست نے بتایا کہ کوئٹہ میں ہزارے سب سے زیادہ پاکستان کے حامی تھے لیکن ان کے ساتھ ہونے والی نسل کشی کے بعد موسیٰ خان کو جنم دینے والی قوم ہزارہ برادری پاکستان سے شاکی ہے۔ پاکستان بنانے والوں کی اولاد (کہ سندھ نے سب سے پہلے قرارداد سندھ اسمبلی میں پیش و منظور کی تھی)تئيس مارچ کے دن ملک سے علیحدگی کا مطالبہ اور عالمی برادری سے اس میں مدد کیوں مانگ رہے ہیں۔ تیس ہزار اہلکاروں اور فوجیوں کو قتل کرنے والے طالبان سے مذاکرات کئے جاتے ہیں اور اس میں طاقتور ایجنسیوں کے لوگ بھی شریک ہوتے ہیں اور دوسری طرف سندھی اور بلوچ قوم پرستوں اور اردو بولنے والوں کی لاشیں بھیجی جاتی ہیں۔وہ انیس سو چالیس کی قرارداد جس میں پانچ صوبوں کا ملک پاکستان میں الحاق رضاکارانہ تھا کا میثاق اس وقت ٹوٹ نہیں جاتا جب نوجوانوں، بچوں اور بوڑہے بلوچوں اور سندھیوں کی لاشوں کے تحفے ان کی جیب میں ان کے نام اور پاکستان زندہ باد کی پرچیوں اور ان کی جلی لاشوں کی گٹھڑیوں کی صورت بھیجی جاتی ہیں؟ شاید اب اس پر سوچـنے کا وقت بھی تیزی سے گزر گیا ہے۔
تازہ ترین