کونسل آف کامن انٹرسٹ کی منظوری کے بعد 2023ء میں ہونیوالی مردم شماری کے جو نتائج سامنے آئے ہیں اس سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ ہمیں اپنی نوجوان نسل کا مستقبل محفوظ بنانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ مردم شماری کے اعداد و شمار سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ملک میں اڑھائی کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں آبادی میں اضافے کی رفتار بھی خوفناک حد تک زیادہ ہے کیونکہ 1998ءکی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی ساڑھے 14 کروڑ تھی جو لگ بھگ 25 سال بعد 24 کروڑ سے زائد ہو چکی ہے جس میں 80 فیصد آبادی کی عمر 40سال یا اس سے کم ہے۔اگرچہ اتنی بڑی تعداد میں نوجوان طبقہ کسی بھی ملک کی ترقی کیلئے انتہائی کارآمد ثابت ہو سکتا ہے لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ مناسب تعلیم اور ہنر سے بھی آراستہ ہو۔ ایک اندازے کے مطابق ملازمت کے حصول کی خواہشمند 60فیصد سے زیادہ افرادی قوت کے پاس خدمات اور مینوفیکچرنگ کے شعبوں میں درکار مہارتوں کی کمی ہے۔ اس وجہ سے بہت سی کمپنیاں اور سرمایہ کار اپنے پیداواری عمل کو اپ گریڈ کرنے سے گریزاں ہیں کیونکہ ملک میں نئی ملازمتوں کے لیے درکار ہنر مند انسانی وسائل کی کمی ہے۔ پاکستان لیبر فورس سروے 21-2020 کے مطابق ملک میں 15 کروڑ 98 لاکھ 30 ہزار افراد کام کرنے کی عمر میں ہیں۔ ان میں سے آٹھ کروڑ 92 لاکھ مرد ہیں اور تقریباً سات کروڑ 89 لاکھ خواتین ہیں۔ تاہم کام کاج کے قابل اس آبادی میں سے دو کروڑ 60 لاکھ مرد اور چھ کروڑ 20 لاکھ خواتین بے روزگار ہیں۔ اسی طرح ورلڈ اکنامک فورم کی 2017 میں جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بے روزگار لوگوں میں سے اکثر کے پاس کوئی ہنر نہیں ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق دراصل پاکستان میں ہنر مند افراد کی تعداد اتنی کم ہے کہ اس حوالے سے بنائی گئی 130 ممالک کی ایک فہرست میں اس کا نمبر 125ہے۔ اس فہرست میں شامل جنوبی ایشیا کے دوسرے ممالک بھی پاکستان سے کہیں بہتر ہیں۔ ان میں سے سری لنکا کا نمبر 70، نیپال کا 98، انڈیا کا 103 اور بنگلہ دیش کا 111 ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان اور بیرون ملک ہنر مند افراد کیلئے روزگار کے بہترین مواقع وسیع تعداد میں موجود ہیں لیکن ہمارے نوجوان طبقے میں ٹیکنیکل ٹریننگ کے حصول کی خواہش انتہائی کم ہے اور ہر کوئی یونیورسٹی کی ڈگری حاصل کر کے اعلیٰ سرکاری نوکری حاصل کرنے کا خواہشمند ہے۔ علاوہ ازیں ملک میں ٹیکنیکل ایجوکیشن کے اداروں کی بھی کمی ہے اور ان کی مجموعی تعداد 3500کے قریب ہے جہاں بامشکل پانچ لاکھ افراد کو تربیت دینے کی سہولت دستیاب ہے۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ان اداروں کی استعداد کار بڑھانے کے ساتھ ساتھ ان میں دی جانے والی تعلیم اور تربیت کا معیار بھی مزید بہتر بنایا جائے۔اس حوالے سے خوش آئند بات یہ ہے کہ پنجاب حکومت نے ٹیوٹا پراجیکٹس میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو فروغ دینے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ٹیوٹا کے اداروں میں مارکیٹ کی ڈیمانڈ کے مطابق جدید کورسز کروانے کے علاوہ غیر ملکی لینگویجز کورسز بھی متعارف کروائے جا سکیں۔ علاوہ ازیں انٹرنیشنل مارکیٹ میں اسکلڈ جاب کیلئے پنجاب اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹنگ اتھارٹی کے قیام کی تجویز پر بھی اتفاق کیا گیا ہے۔ اسی طرح دیگر صوبوں اور وفاقی حکومت کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اقتصادی ترقی اور بیروزگاری کو کم کرنے کے لئے ٹیکنیکل ٹریننگ کورسز کا فروغ اور ان میں جدت لانا وقت کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں سفارتخانوں میں تعینات ٹریڈ آفیسرز کو یہ ٹاسک دیا جا سکتا ہے کہ وہ ہر ملک کی ضرورت کے مطابق افرادی قوت کی تیاری کے لئے مخصوص ٹریڈز کی نشاندہی کریں۔ اس طرح ملنے والی معلومات کو آگے ٹیکنیکل ٹریننگ دینے والے اداروں کے ساتھ شیئر کیا جائے تا کہ وہ انہی ٹریڈز میں نوجوانوں کو عالمی معیار کے مطابق تربیت فراہم کرکے ملازمت کا حصول یقینی بنائیں۔اگر پاکستان نے دنیا میں ایک ترقی یافتہ ملک کے طور پر خود کو منوانا ہے تو یہ ہنر مند، تعلیم یافتہ اور صحت مند انسانی وسائل کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان سے نوجوانوں کی بڑی تعداد روزگار کے حصول کے لئے بیرون ملک جاتی ہے لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ مناسب مہارتوں کی کمی کی وجہ سے انہیں بہتر رسمی ملازمتیں کم ہی ملتی ہیں۔ اس لئے ہمیں اپنی تعلیمی پالیسی میں ہنگامی بنیادوں پر تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل افراد کیلئے پاکستان سمیت دنیا بھر میں ملازمتیں کم ہو رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے نوجوان بھی اب پیشہ ورانہ سکولوں میں جانے اور مارکیٹ پر مبنی ہنر حاصل کرنے کیلئے کالج چھوڑ رہے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ ملک کے مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے اعلیٰ ثانوی سطح تک معیاری لازمی تعلیم کو یقینی بنانے کیساتھ ساتھ مارکیٹ پر مبنی پیشہ ورانہ تربیتی اداروں کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافے کرے۔