• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن


جس طرح دنیا بھر میں اردو ادب اور زبان کو زندہ رکھنے کے لیے ادبی تنظیمیں نئی نسلوں کو اردو سے جوڑنے اور ان کو زبان کی طرف راغب کرنے کے لیے اپنے تئیں کوششوں میں مصروف ہیں، اس طرح ہی ڈیلس میں بھی النور انٹرنیشنل کی جانب سے ہر بار نت نئے انداز سے مشاعروں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔

اس بار بحری جہاز پر ہونے والا یہ مشاعره ڈیلس کی ادبی تنظیم النور انٹرنیشنل کا پانچواں مشاعرہ تھا، فطرت کے حقیقی رنگ دیکھنے کی چاہ میں اس بار شرکت کرنے والوں کی تعداد گنجائش سے زیادہ ہونے پر کئی حاضرین کو مایوس ہو کر گھر واپس لوٹنا پڑا تاہم نظاره قدرت سے تسکین اور طمانیت کا حصول چاہنے والوں کے لیے یہ ایک دلچسپ سفر تھا جس میں لذیز اور ذائقہ دار کھانوں کے ساتھ ساتھ محفل مشاعرہ بھی تھی۔

مشاعرے کی یہ شام جب شام رات میں تبدیل ہونے لگی تو مشاعرہ کی محفل کا آغاز کیا گی، نظامت کے فراۂض معروف ریڈیو اینکر شازیہ خان اور مشاعرہ کے میزبان نور امرہوی نے سر انجام دیے ۔ 

مشاعرہ کی صدارت کے لیے معروف شاعر طارق ہاشمی کو یہ اعزاز سونپا گیا جبکہ اس مشاعرہ میں انڈیا سے آئے ہوئے معروف شاعر منظر بھوپالی نے خصوصی طور شرکت کرکے مشاعرہ کو چار چاند لگادیے، مہمان خصوصی ڈیلس کی معروف شاعرہ ڈاکٹر شمشه قریشی تھیں۔ 

 مشاعرہ کی ابتدا شاعر نورامرہوی نے اپنے کلام سناکر کی جس کے بعد پرمد راجپوت، رضوان حسنی، شیخ اعجاز، شاہ عالم عصر، ناہید شاد، نادر درانی ، ڈاکٹر شمشه قریشی مسعود قاضی، ڈاکٹر عامر سلیمان، نے اپنے اپنے کلام سے محفل کو بھر پور طریقہ گرما دیا۔

بعد ازاں شکاگو سے آئے مہمان شاعر ڈاکٹر سلیم تو رانیہ اور انڈیا سے آئے شاعر منظر بھوپالی نے اپنی غزلوں اور اشعار سے محفل لوٹ لی ہر طرف واہ واہ کی صدائیں بلند ہو نے لگیں۔

مشاعرہ کی محفل جب شباب پر پہنچی تو اس وقت رات میں جھیل کے اندر آسمان سے اترتے ستارے بھی دلفریب منظر پیش کر رہے تھے، جھیل کا پانی اور اس سے نکلتی مہیب سی روشنی محبتوں کے دیے جلارہی تھی تو اس دوران اشعار کی آمد بھی بھر پور طریقے سے ہوتی رہی۔

 حاضرین بھی خوابوں کے ایک نئے جہاں سے روشناش ہورہے تھے اور اس وقت ہر کسی کا دل یہ کہے کہ کاش یہ پر سکون منظر ٹھہر جائے، شدید گرمی میں بھی تسکین بخش خنکی اور ٹھنڈک کا احساس نمایاں دکھائی دیا، آنکھیں ساکت ہو رہی تھیں اور پلیکیں جنبش سے انکار کر رہی تھیں ، ایسا لگ رہا تھا کہ وقت تھم سا گیا ہے اور کائنات کی گردش بھی ساکت ہو گئی ہے۔ 

قدرت کی اس صناعی کا منظر ایک طرف آنکھوں کو خیرہ کر رہا تھا تو دوسری جانب شعراء اپنے اشعار اور سحرزدر آواز سے روحوں کو بیدار کرنے میں مصروف رہے، مشاعرے کو دل بھرکر لوٹتے رہے۔

 ڈیلس کے قریب واقع فریسیکو جھیل پر جہاز کا یہ سفر گیارہ میل طویل تھا مگر یہ سفر محسوس بھی نہیں ہوا کہ جہاز دوباہ اپنی منزل پر واپس آکر لنگر انداز ہوگیا۔ 

سب سے آخر میں مشاعرہ کے صدر طارق باشمی نے مختصر صدارتی خطاب کے بعد اپنے اشعار پیش کیے، انہوں نے یہ قطہ پڑھا اور حاسدین کو اس کے ذریعہ مخصوص پیغام بھی دیا۔

طارق ہاشمی نے اس موقع پر پانی پر لکھی نظم بھی پیش کی، آنے والے حاضرین شوکت محمد، ہیوسٹن سے فیاض خان رامپوری اور ڈیلس میں مختلف شعبۂ ہائے جات سے تعلق رکھنے والی کئی نمایاں شخصیات بھی اس مشاعرہ میں شریک سفر رہیں جبکہ اردو سے شغف رکھنے والے بچوں نے بھی شرکت کی، آنے والے حاضرین کا کہنا تھا کہ النور کی جانب سے ہونے والے تمام مشاعرے اردو کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور یہ کمیونٹی کو جوڑنے کا بڑا سبب ہیں۔

بین الاقوامی خبریں سے مزید