گزشتہ چار دہائیوں سے زائد عرصہ کے دوران افغانستان میں غیر ملکی جارحیت کے دوران لاکھوں افراد جنگ کی بھٹی کا ایندھن بن چکے ہیںیہ جنگ ختم ہونے کو نہیں ا ٓرہی۔ ’’ڈسٹرب‘‘ افغانستان نے جہاں اس خطے کا امن تباہ کر دیا وہاں افغانستان سے پاکستان میں دنیا کی سب سے بڑی نقل مکانی ہوئی ہے کم و بیش 50لاکھ افغان مہاجرین نے امن کی تلاش میں پاکستان میں پناہ لی ہے۔ کچھ واپس چلے گئے ہیں کچھ نے تو نادرا کے بد عنوان افسروں کی ملی بھگت سے پاکستان کی شہریت اختیار کر لی اور کچھ پاکستان کے پاسپورٹ پر مغربی ممالک میں سیاسی پناہ کے مزے لے رہے ہیں پاکستان کے عوام اور حکومت نے 40سال زائد عرصہ کے دوران افغانوں کی پرورش کی ان میں سے آج بھی 30لاکھ کے لگ بھگ افغان اپنے وطن واپس جانے کیلئے تیار نہیں لیکن ان کو جب بھی موقع ملتا ہے وہ پاکستان کے پرچم کی توہین کر کے اس کے خلاف اپنی نفرت کا اظہارکرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔ پچھلے دنوں افغانیوں کے نفرت بھرے دو واقعات فرینکفرٹ اور پیرس میں دیکھنے میں آئے ہیں۔ بدقسمتی سے افغانستان دہشت گردوں کی جنت بن چکا ہے افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔ افواج پاکستان کئی عشروں سے ’’حالت جنگ‘‘ میں ہیں۔ دہشت گردی کا قلع قمع کرنے میں مصروف سیکورٹی اہلکاروں کی بہت بڑی تعداد اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر چکی ہے اس وقت پاکستان کے عوام اور مسلح افواج کو ’’ڈیجیٹل ٹیرر ازم‘‘ کا بھی سامنا ہے، فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں جہاں دہشت گردی کی واردات میں مسلح افواج کی جانب سے دی جانے والی جانی قربانیوں کا ذکر کیا ہے وہاں انہوں نے ’’ڈیجیٹل ٹیرر ازم‘‘ کے خلاف جنگ میں کامیابی کے لئے اپنے ’’عزم صمیم‘‘ کا اظہار کیا۔ اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں پاکستان کی مسلح افواج کے خلاف جہاں بیرون ملک سے ’’ڈیجیٹل ٹیرر ازم‘‘ ہو رہی ہے وہاں اس کاہیڈ کوارٹر پاکستان میں ہے اس کے لئے ملک میں سیاسی جماعت کا لبادہ اوڑھے کچھ عناصر ’’سہولت کار‘‘ کے فرائض انجام دے رہیں صورت حال اس حد تک خراب ہو گئی کہ جب عسکری قیادت کا نام لے کر ٹارگٹ بنایا جانے لگا تو قانون حرکت میں آ گیا پچھلے دنوں ایک بڑی سیاسی جماعت کے ہیڈ کوارٹر پر چھاپہ مار کر کچھ لوگوں کو اٹھا لیا تو بہت سی باتیں منظر عام پر آئیں۔ پیکا اور انسداد دہشت گردی کا قانون حرکت میں آ گیا۔ سر دست اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ قانون کی گرفت میں کتنے لوگ آئے ہیں اور ان کو قرار واقعی سزا دی جاتی ہے یا وارننگ دے کر ان کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔
8فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے نتیجہ میں ملک میں امن و سکون کا ماحول تو پیدا نہ ہو سکا البتہ ملک میں سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہی ہو ا ہے عام انتخابات کے نتیجے میں کامیاب ہونے والی پارٹی بوجوہ اقتدار تو حاصل نہ کر سکی لیکن اس نے پارلیمنٹ اور عدلیہ میں اودھم مچا رکھا ہے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے، سپریم کورٹ کی جانب سے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کے فیصلے سے وقتی طور پر پی ٹی آئی کا مورال بلند ہوا، اس کے لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ تاحال عوامی سطح پر پی ٹی آئی دبائو کا ماحول بھی پیدا نہیں کر سکی پچھلے 6ماہ کے دوران پی ٹی آئی عمران خان کی رہائی کے لئے ایجی ٹیشن شروع کر سکی اور نہ ہی اعلانات کے باوجود اپوزیشن کا گرینڈ الائنس بن سکا ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان جنہوں نے اپنی ایک سال کی قید میں خو د کو ’’مرد آہن‘‘ ثابت کرنے کی کوشش کی اچانک ان کے طرز عمل میں تبدیلی آ گئی، سیاسی لغت میں اسے ’’ہتھیار‘‘ ڈالنا ہی کہا جا سکتا ہے۔ اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے فوج سے بات چیت کرنے کا عندیہ دیا ہے اگلے روز عمران خان نے پی ٹی آئی کی قیادت کو فوج پر تنقید کرنے سے روک دیا ٹی وی پروگرامز میں شرکت کرنے والے پارٹی لیڈرز کو فوج کے بارے میں مثبت رائے کا اظہار کرنے کی ہدایت کی ہے اس سلسلے میں پارٹی کے سیکریٹری جنرل عمر ایوب کے دستخطوں سے ہدایت نامہ جاری ہوا کہ ’’خصوصی طور سپہ سالار جنرل سید عاصم منیر سے متعلق کسی بھی منفی بات سے ہر صورت میں گریز کیا جائے‘‘ ہدایت نامہ میں ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو وارننگ دی گئی ہے ’’ہدایات پر عمل نہ کرنے پر ان کے خلاف پارٹی ڈسپلن کے تحت کارروائی کی جائے گی‘‘ پچھلے دو سال سے زائد جاری پی ٹی آئی کے ’’اینٹی اسٹیبلشمنٹ‘‘ پالیسی میں ’’یو ٹرن‘‘ پر سیاسی حلقوں میں حیرت کا اظہارکیا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سے مذاکرات کرنے سے انکار کر چکی ہے جب کہ کچھ دنوں سے بانی عمران کے لب ولہجہ میں نرمی آئی ہے وہ پچھلے کئی دنوں سے اشاروں کنائیوں میں اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کے پیغامات دے رہے تھےلیکن اچانک ان کی جانب سے فوج سے مذاکرات کا عندیہ دینا غیر معمولی بات ہے پی ٹی آئی کی جانب سےمذاکرات کیلئے پیشکش کا تاحال اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔ اب تو پی ٹی آئی نے اس حد تک سرنڈر کر دیا ہے کہ پی ٹی آئی اور فوج کے درمیان کوئی جھگڑا نہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) پی ٹی آئی کو لڑانا چاہتی ہے۔پی ٹی آئی جو فارم 45اور 47کے چکروں میں پھنسی ہوئی ہے عدالتی چکروں سے نکلنا چاہتی ہے یہی وجہ ہے اس نے قبل ازوقت انتخابات کرانے کا مطالبہ شروع کر دیا ہے۔ فوجی ترجمان پہلے ہی کہہ چکے ہیں فوج کا سیاست دانوں سے رابطہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں اگر کسی نے رابطہ کرنا ہے تو حکومت سے بات کرےعمران خان کا یہ بیان انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ وہ دوبارہ انتخابات کے نتیجے میں بر سر اقتدار آنے پر جنرل عاصم منیر کو ان کے عہدے سے نہیں ہٹائیں گے۔ پی ٹی آئی کی مذاکرات کے لئے بے تابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے۔ عمران خان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش کے بعد اسٹیبلشمنٹ سے مذاکراتی ٹیم مقرر کرنے کا تقاضا کر رہی ہے جب کہ اسٹیبلشمنٹ نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔