مملکت خداداد پاکستان کے جس دفتر میں بھی جائیں بابائے قوم کی تصویر آویزاں نظر آتی ہے۔ بابائے قوم نے قیام پاکستان کے بعد اپنے فرمودات کے ذریعے سادگی اور کفایت شعاری کی نہ صرف تلقین کی بلکہ بطور گورنر جنرل خود بھی اس پر سختی سے عمل پیرا ہوئے۔ انہوں نے اپنی ذاتی استعمال کی چیزیں سرکاری خزانے سے کبھی نہ لیں۔ گورنر جنرل ہاؤس میں ہونے والے اجلاسوں میں شرکاء کو صرف پانی پیش کیا جاتا تھا۔لیکن بدقسمتی سےہم قائد کے فرمودات کو پست پشت ڈال کر ہر وہ کام کرتے ہیںجسکی انہوں نے سختی سے ممانعت کی تھی۔ ایک ایسا ملک جو معاشی عدم استحکام، غربت اور عدم مساوات سے دوچار ہے،حکمران اشرافیہ عیش و عشرت میں مصروف ہے، عام آدمی بنیادی ضروریات سے محروم ہے اور نوجوانوں کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔ ایک طرف حکومت اسراف، پروٹوکول اور لگژری گاڑیوں کے بیڑے کو برقرار رکھے ہوئے ہے، شنید ہے کہ صرف پنجاب میں گورنر، وزیر اعلیٰ، وزرا، ججز، بیورو کریسی، اور پولیس افسران سمیت دیگر سرکاری افسران کے زیر استعمال سرکاری گاڑیوں کے سالانہ پیٹرول اور آپریشنل اخراجات 26ارب روپے ہیں، جبکہ یوٹیلٹی سہولیات کی مد میں بھی 26ارب روپے سالانہ کے اخراجات ہیں۔ دوسری طرف، عوام اپنی بنیادی ضروریات کیلئے مارے مارے پھر رہےہیں انکے پاس خوراک، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم کیلئے وسائل کم ہورہے ہیں۔ رہی سہی کسر بجلی کے ہوشربا بلوں نے پوری کر دی ہے۔ غربت کی شرح میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے، 39 فیصد سے زیادہ آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ صنعتیں اور کاروبار بند ہونے سے صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے نتیجتاً بڑے پیمانے پر بیروزگاری پھیل رہی ہے۔ خاص طور پر نوجوان اس معاشی بدحالی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ پاکستان کی اگلی نسل کا مستقبل ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے کیونکہ وہ ایسے نظام میں امید تلاش کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں جو مکمل طور پر فرسودہ ہوچکا ہے۔ حکومت اپنے شہریوں کی حالت زار سے غافل ہے۔ سیاست دان قوم کو درپیش اہم مسائل کو حل کرنے کے بجائے اقتدار کی کشمکش اور باہمی جھگڑوں میں مشغول اپنے اپنے ایجنڈوں پر توجہ مرکوز کیے ہوئےہیں۔ احتساب اور شفافیت کے فقدان نے استثنیٰ کے کلچر کو جنم دیا ہے، جہاں اقتدار میں رہنے والے اپنے مفادات کو عوام کی فلاح و بہبود پر ترجیح دیتے ہیں۔ ان کیلئے ان کا خاندان ہی پاکستان میں جمہوریت اور اس کی بقا کا ضامن ہے۔ اگر کوئی ان سے سوال کر لے، ان کی ترقی اور اثاثوں میں بے تحاشا اضافہ کی بابت پوچھ لے تو وہ اس کو جمہوریت پرحملہ قرار دینے لگ جاتے ہیں۔ آج ہم اقتصادی طور پرتباہی کے جس دہانے پر کھڑے ہیں اس کی وجہ کرپٹ نااہل اور مفاد پرست حکمران اور ان کے سہولت کار ہیں جو ہر بار روپ بدل بدل کر ہمارے اوپر مسلط ہو جاتے ہیں لیکن فطرت وہی رہتی ہے۔ عوام کو ہر دور میں سنہری خواب دکھائے گئے اور مختلف نعرے لگا کر عوام کی امنگوں کا گلا گھونٹا گیا۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی بے بسی سے اپنے وطن کی بربادی کا تماشہ دیکھ رہے ہیں جہاں طاقت ور اپنے سے کمزور اور بے بس عوام کی پروا کئے بغیر اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف ہیں۔ آئی پی پیز کے نام پر کس طرح عوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ چھینا گیا، سب کے سامنے ہے۔ ستر روپے فی یونٹ بجلی خرید کر ہماری انڈسٹری بیرونی ممالک کا مقابلہ کسی صورت نہیں کر سکتی۔ تیل گیس اور اجناس کی امپورٹ میں جو گھپلے ہوتے ہیں، کمیشن کھایا جاتا ہے وہ جائز تصور ہوتا ہے۔ ترقیاتی اسکیموں اور ڈیولپمنٹ کے نام پر اربوں روپے ہڑپ کر لیے جاتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اشرافیہ کی بڑی تعداد کرپشن اور کمیشن کاپیسہ بلا خوف و خطر بیرون ملک منتقل کر رہی ہے۔ اپنے کپڑے، جوتے تک بیرونِ ملک سے خریدنے والوں کو اس ملک یا یہاں کے عوام سے کیا غرض؟ انکا علاج، جائیداد، اولاد، مال و دولت سب باہر ہے، یہ ملک تو محض کمائی کا ایک ذریعہ ہے، پوری دنیا میں لوگ ہماری ملکی قیادت کو دیکھ کر یہی سمجھتے ہیں کہ یہ قرضہ مانگنے آئے ہیں، ہم عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہو چکے ہیں اور اب حالت یہ ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک کے سفارتخانے ہمارے شہریوں کو ویزا دینے میں پَس و پیش سے کام لے رہے ہیں۔ جب ملک کی سیاسی قیادت ہی کو ملک پر اعتبار نہیں ہو گا، کوئی دوسرا اس پر بھروسہ کیوں کرے گا؟ اگر ہمارے ارباب اختیار کے اثاثے، بچے، اور کاروبار اس ملک میں نہیں ہونگے تو وہ خود ملک کے ساتھ کس طرح مخلص ہو سکتے ہیں۔ اگر یہ حکمران عوام کے معاملے میں ذرا سے بھی سنجیدہ ہیں تو اقتدار کے ایوانوں پر بیٹھی شخصیات کو قربانی دینا پڑے گی۔ قوم کے پیسوں کو امانت سمجھ کر استعمال میں لانا ہوگا۔ بے جا شان و شوکت اور نمائش سے اجتناب کرنا ہوگا۔ کفایت شعاری کو اپنانا، غیر ضروری اخراجات کو کم کرنا اور ایسے اقدامات میں سرمایہ کاری شامل ہے جو ملازمتیں پیدا کرتے ہیں اور اقتصادی ترقی کو تحریک دیتے ہیں۔ نوجوانوں پر خاص طور پر ایسے پروگراموں کے ساتھ توجہ دینے کی ضرورت ہے جن کا مقصد انہیں ہنر مندی کی تربیت، تعلیم اور روزگار کے مواقع فراہم کرنا ہو۔ ابھی وقت ہے کہ وطن عزیز کے مقتدر حلقے عوام کو سنجیدگی سے لیں۔ شاہانہ حکومتی اخراجات اور عوامی طرزِ حیات کے درمیان فرق کو اب مزید نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اجتماعی کوششوں اور عوام کی فلاح و بہبود کے عزم کے ذریعے ہی پاکستان ایک روشن مستقبل کی تعمیر کی امید کر سکتا ہے۔
(صاحبِ مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)