• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان کی پانچ اضلاح پر مشتمل ’’گرین بیلٹ‘‘ اُجڑ رہی ہے

مُلک کے سب سے بڑے صوبے، بلوچستان کی پانچ اضلاع پر مشتمل’’ گرین بیلٹ‘‘ کو نہری پانی کی شدید کمی، زرعی اجناس کی قیمتوں میں عدم استحکام اور ماحولیاتی تبدیلی سے رونما ہونے والی غیر متوقّع صُورتِ حال کے سبب بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ انگریز دورِ حکومت میں سکھر بیراج سے نکالی گئی کیر تھر کینال اور پھر ساٹھ کی دہائی میں گڈو بیراج سے نکالی گئی پٹ فیڈر کینال، اِس گرین بیلٹ کی ہریالی اور زرعی ترقّی میں معاون بنی رہیں، لیکن گزشتہ دو دہائیوں سے اِن نہروں کو پانی کی کمی اور تشویش ناک حد تک شارٹ فال کا سامنا ہے۔ 

دونوں کینالز کا زیرِ کمان رقبہ مجموعی طور پر آٹھ لاکھ ایکڑ پر مشتمل ہے، تاہم خریف سیزن میں بلوچستان کو مقرّرہ حصّے کا پانی نہیں ملتا، حالاں کہ اس سیزن میں چاول کی کاشت کے لیے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ قومی آبی وسائل میں بلوچستان سب سے چھوٹا اسٹیک ہولڈر ہے اور بد قسمتی سے بلوچستان کے لیے ارسا کی جانب سے مقرّر کردہ پانی کی سپلائی گمبھیر مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ پانی کی کمی یا مصنوعی شارٹ فال کے سبب خصوصاً ٹیل(نہروں کا آخری حصّہ) کی زمینوں کو پانی کی شدید کمی کا سامنا ہے۔

اوستا محمّد کی گنداخہ تحصیل کا وسیع علاقہ تو قلّتِ آب کے سبب کسی ویرانے کا منظر پیش کررہا ہے، جہاں لوگ اپنے آباؤ اجداد کی زرعی زمینیں اونے پونے فروخت کرنے کے بعد سندھ کے مختلف علاقوں میں محنت مزدوری کر کے اپنے اہل و عیال کی کفالت پر مجبور ہیں۔

اِس ضمن میں کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ’’ نہری پانی کے ڈسٹری بیوشن سسٹم پر سندھ ایری گیشن کی بالا دستی بلوچستان میں قلّتِ آب کی وجہ ہے۔ بلوچستان کے حصّے کا پانی سندھ کی انتظامی حدود میں واقع درجنوں واٹر کورسز میں بہایا جا رہا ہے۔ بلوچستان حکومت اِس معاملے پر دو دہائیوں سے مختلف فورمز پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتی آرہی ہے، لیکن تاحال کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آسکا۔‘‘

دوسری جانب، زرعی اجناس کی قیمتوں میں عدم استحکام سے بھی چھوٹے بڑے تمام ہی کاشت کار پریشان ہیں۔اوستا محمّد میں چاول صاف کرنے کی کم و بیش ایک سو بیس رائس ملز کام کر رہی ہیں اور یہاں سے سالانہ لاکھوں ٹن ایکسپورٹ کوالٹی چاول مشرقِ وسطیٰ سمیت مختلف ممالک کو برآمد کیا جاتا ہے۔ لیکن سندھ اور بلوچستان کے سنگم پر واقع، اوستا محمّد ضلعے میں بجلی کا بحران رائس انڈسٹری کا پہیّہ جام کر رہا ہے۔ 

رائس ملز مالکان کا کہنا ہے کہ اوستا محمّد سندھ اور بلوچستان کا سب سے بڑا رائس انڈسٹریل زون ہے، تاہم یہ اہم صنعت، حکومتی سرپرستی سے محروم ہے۔ رائس ملز ایسوسی ایشن کے صوبائی صدر، حاجی عابد حسین بھنگر کا اِس صُورتِ حال پر کہنا ہے کہ’’ زراعت سے جُڑی رائس اندسٹری کا صوبے کی معاشی ترقّی میں کلیدی کردار ہے، تاہم بد قسمتی سے صوبائی حکومت نے اِس جانب توجّہ نہیں دی۔ 

بجلی کے بدترین بحران کے علاوہ رائس ملز مالکان کو کمرشل بینکس سے تجارتی قرضوں(کیش فنانس) کے حصول میں بھی مشکلات درپیش ہیں، جب کہ قرضوں پر بھاری مارک اَپ بھی کاروبار میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔نیز، ایکسپورٹرز کی اجارہ داری، مبیّنہ بلیک میلنگ اور اُن کی مَن مانی کے سبب رائس انڈسٹری کا مستقبل تاریک ہوتا دِکھائی دے رہا ہے۔ اوستا محمّد، جعفر آباد اور نصیر آباد کی رائس ملز کا چاول جب کراچی پورٹ پہنچتا ہے، تو وہاں کے ایکسپورٹرز اور بیوپاری دانستہ طور پر ہمارے بہترین کوالٹی کے چاول کو ریجکٹ کر کے ہمیں بلیک میل کرتے ہیں۔ 

اِس سے قبل حکومتی سرپرستی میں رائس ایکسپورٹ کارپوریشن (RECP)کا ادارہ ہمارے کاروبار کو تحفّظ فراہم کر رہا تھا، لیکن اب صُورتِ حال یک سر مختلف ہے۔ رائس ٹریڈرز کو ایکسپورٹرز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ رائس ملز کو دوسرا بڑا مسئلہ ٹرانسپورٹیشن کا درپیش ہے۔

پھر جیکب آباد تا لاڑکانہ براستہ اوستا محمّد، شہداد کوٹ چلنے والی ریل سروس بھی گزشتہ سولہ سال سے بند ہے۔ لوگ پبلک ٹرانسپورٹ کی کھٹارا بسز اور ویگنز میں سفر پر مجبور ہیں۔ریل سروس بند ہونے کے بعد نامعلوم افراد نے میلوں تک ریلوے ٹریک بھی اکھاڑ دیا ہے۔ ریل سروس کی اپیل پر کسی حکومت نے کان نہیں دھرے۔ 

اِس سے قبل لاکھوں ٹن چاول کی اندرونِ مُلک ترسیل کے لیے مال بردار ٹرین بہت بڑی سہولت اور تحفّظ کی ضمانت تھی، لیکن اب مل مالکان یا رائس ٹریڈرز ٹرانسپورٹرز کے رحم و کرم پر ہیں۔بھاری بَھر کم کرایہ تجارتی خسارے کا سبب بن رہا ہے، تو کروڑوں روپے کے مال کی ترسیل میں روڈ رِسک اس کے علاوہ ہے۔‘‘

بلوچستان کی گرین بیلٹ کا مرکزی مقام اوستا محمّد، جسے حال ہی میں ضلعے کا درجہ ملا ہے، تمام تر وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود طرح طرح کے مسائل میں جکڑی ہوئی ہے۔ سندھ سے ملحقہ بلوچستان کے اس سرحدی ضلعے میں معیاری تعلیمی ادارے ہیں اور نہ ہی صحت کی سہولتیں۔علاوہ ازیں، امن و امان کی مخدوش صُورتِ حال اور اسٹریٹ کرائمز کی بڑھتی وارداتوں کے سبب بھی تاجر برادری عدم تحفّظ کا شکار ہے۔ دن دیہاڑے گن پوائنٹ پر ہندو تاجروں کو لُوٹنا معمول بن چُکا ہے۔ 

اوستا محمّد ضلع تو بن چُکا، لیکن بنیادی انفرا اسٹرکچر کی عدم دست یابی کے سبب فی الوقت یہ نام ہی کا ضلع ہے، جہاں ڈی سی کے لیے دفتر ہے اور نہ ہی سرکاری رہائش گاہ۔ یہی حال پولیس کا ہے۔ اِس ضمن میں ایس ایس پی اوستا محمّد، انور بادینی کا کہنا ہے کہ’’ نفری کی کمی اور پولیس لائن نہ ہونے سے پولیس اہل کاروں کو رہائشی سہولت میسّر نہیں۔‘‘ ڈسٹرکٹ کمپلیکس کی تعمیر میں غیر معمولی تاخیر سے بھی مسائل جنم لے رہے ہیں۔ بلوچستان کے تیسرے بڑے کاروباری مرکز میں شہری سہولتوں کی عدم فراہمی سے لوگوں کی زندگی اجیرن ہو چُکی ہے۔

بجلی وگیس کی طویل لوڈ شیڈنگ، پینے کے صاف پانی کی عدم دست یابی، سیوریج کا مفلوج نظام، خستہ حال سڑکیں اور ٹاؤن پلاننگ کا فقدان عوام کے لیے دردِ سر ہے، وہیں منشیات کا پھیلتا نیٹ ورک نوجوان نسل کو تباہی کی جانب دھکیل رہا ہے۔ بلوچستان کی گرین بیلٹ کے مسائل کی بڑی وجہ اگرچہ نہری پانی کی غیر منصفانہ تقسیم ہے، تاہم حلقے کے منتخب عوامی نمائندوں کی کارکردگی بھی عوام کے سامنے سوالیہ نشان ہے۔ 

ایم پی اے اور ایم این اے کے ترقیاتی فنڈز کے اجرا کے بعد بھی سرسبز وشاداب کھیتوں سے لہلہاتا یہ علاقہ قرونِ وسطیٰ کا منظر پیش کرتا ہے۔ عوامی حلقوں نے سرکاری محکموں میں بڑھتی کرپشن پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اربابِ اختیار سے گرین بیلٹ کی رونقیں بحال کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔

سنڈے میگزین سے مزید