• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر…شیخ الحدیث مولانا محمد حنیف جالندھری سیکریٹری جنرل وفاق المدارس العربیہ پاکستان
میجر جنرل (ر) ڈاکٹر غلام قمر ، ڈائریکٹر جنرل ، برائے مذہبی تعلیم وفاقی وزارت تعلیم (اسلام آباد ) کا 3 اگست 2024 ء کو ایک قومی اخبار میں ” مدارس رجسٹریشن، حقیقت اور افسانہ“ کے عنوان سے کالم شائع ہوا ہے ۔ اس کالم میں مدارس رجسٹریشن کے حوالے سے بعض باتیں ایسی ہیں جو حقائق کے منافی ہیں ، ہم سمجھتے ہیں کہ ان باتوں کی وضاحت نہایت ضروری ہے۔
موصوف نے اپنے کالم میں مدارس رجسٹریشن، یکساں نصاب تعلیم اور اتحاد تنظیمات کے حکومتوں کے ساتھ مذاکرات کو موضوع بنایا ہے۔" انہوں نے تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ 2019ء میں وزارت تعلیم کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے مطابق دینی مدارس رجسٹریشن سے انکاری ہیں، اور وہ گورے انگریز کے بنائے ہوئے 1860 ء کے سوسائٹی ایکٹ کے تحت ہی مدارس کی رجسٹریشن کرانا چاہتے ہیں "۔ اس سلسلے میں چند گزارشات پیش ہیں :
(1) حقیقت یہ ہے کہ 1860 ء کے سوسائٹی ایکٹ کے قانون کے متعلق یہ بات درست نہیں کی گئی، ہم تو در حقیقت اس ایکٹ کے سیکشن 21 کے تحت رجسٹریشن چاہتے ہیں، 2004ء میں سیکشن 21 اس وقت کے صدر اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے دور میں اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان اور حکومت کے مابین کئی مہینوں کے مذاکرات کے بعد حتمی اور طے ہوا تھا۔ وہ سیکشن 21 گورے انگریز کا نہیں بلکہ مسلمانوں کا اور حکومت پاکستان کے اداروں کا طے کردہ ہے۔ اس لیے یہ تاثر دینا غلط ہے کہ ہم گورے انگریزوں کے ایکٹ کے تحت رجسٹریشن چاہتے ہیں ؟ یہ بالکل بے بنیاد بات ہے۔ 2004ء میں طے ہونے والا سیکشن 21 خاص دینی مدارس کی رجسٹریشن کے لیے ہی ہے۔ ہم نے اس وقت یہ بات کہی تھی کہ اگر اس میں کسی بھی وقت ترمیم کی ضرورت ہو تو وہ بھی باہمی مشاورت سے کی جاسکتی ہے۔
یہاں جملہ معترضہ کے طور پر عرض ہے کہ ہم تو 1860ء کے سیکشن 21 کی بات کرتے ہیں جو ہم مسلمانوں نے باہمی مشاورت سے طے کیا ، جبکہ آپ نے تو 1860 کے سوسائٹی ایکٹ کو اس کی روح کے مطابق اور اس کی تمام دفعات کو من وعن قبول کیا ہوا ہے ۔ کیا اب بھی اس ایکٹ کے تحت مختلف ادارے اور سوسائٹیاں رجسٹرڈ نہیں ہوتیں؟!۔ کیا آپ نے اس ایکٹ کو کبھی ختم کرنے کا سوچا بھی ہے؟ ۔ دوسری طرف ہمارا پورا عدالتی نظام برٹش لاء کے مطابق فیصلے کرتا ہے، جو گورے انگریز کا ہی وضع کردہ ہے، کیا کبھی اس سے پیچھا چھڑانے کا سوچا گیا؟۔ ایک پہلو اور بھی ہے کہ مدارس کی رجسٹریشن میں رکاوٹ کون ہے؟ کہیں یہ دباؤ کسی انگریز ، گورے یا کالےکافروں کی طرف سے تو نہیں؟؟ اندر کی بات تو کوئی بھی نہیں بتا رہا۔
بہر حال یہ 1860 ء کا سیکشن 21 متفقہ طور پر طے ہوا ، اب یہ قانون بن چکا ہے۔ اس کے مطابق قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں قانون سازی ہو چکی ہے۔ اور یہ جو وزارت تعلیم میں رجسٹریشن ہے؟ یہ تو ایگزیکٹو آرڈر کے تحت ہے ، اس کی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ اس لیے ہم جس قانون کی بات کر رہے ہیں وہ باقاعدہ ایک قانون ہے، اور جس کی آپ بات کر رہے ہیں وہ قانون ہے ہی نہیں ۔اس کے علاوہ ہم نے کہا تھا کہ مدارس کے بندا کاؤنٹ کھلوائے جائیں اور نئے اکاؤنٹ کھلوانے میں بھی تعاون کیا جائے ؛ یہاں تو الٹا مدارس کے اکاؤنٹ بند کیے جا رہے ہیں۔ تو معاملہ صاف شفاف کیسے رہا ؟!۔
(2) موصوف نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ : معاہدے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ڈائریکٹریٹ جنرل برائے مذہبی تعلیم ( ڈی جی آرای) کا قیام عمل میں لایا گیا ، مدارس کو چاہیے تھا کہ اپنی رجسٹریشن ڈی جی آر ای کے ساتھ کرواتے لیکن اتحاد تنظیمات مدارس نے اپنے زیر انتظام والحاق مدارس کی رجسٹریشن کروانے سےانکار کر دیا وغیرہ۔
اس سلسلے میں عرض ہے کہ مدارس رجسٹریشن کے سلسلے میں کوئی الگ ڈائریکٹریٹ قائم کرنے کی بات تو سرے سے معاہدے میں شامل ہی نہیں تھی ، معاہدے کا منشاء یہ تھا کہ دینی مدارس کی جو رجسٹریشن پہلے سوسائٹیز ایکٹ کے تحت وزارت صنعت کے ساتھ ہوتی تھی ، اب وزارت تعلیم میں ہوگی ، جس کا واضح مطلب یہ تھا کہ اسی سادگی کے ساتھ ہوگی جس سادگی کے ساتھ وزارت صنعت میں ہوتی تھی اس کے لیے وزارت صنعت نے نہ کوئی الگ ڈائر یکٹوریٹ قائم کیا تھا نہ ملک بھر میں اس کام کے لیے الگ دفاتر قائم کیے تھے، نہ پانچ سال کے بعد رجسٹریشن کی تجدید ضروری تھی ، البتہ سالانہ کو ائف بیشک بھیجے جاتے تھے۔ معاہدے میں 12 ریجنل سینٹر قائم کرنے کی بات تھی ، اس کے متعلق یہی خیال تھا کہ جس طرح ہر ضلع میں وزارت تعلیم کا دفتر ہوتا ہے، انہی میں 12 منتخب اضلاع میں ریجنل دفاتر قائم کر دیے جائیں گے جس کا عملہ وزارت تعلیم سے ہی منسلک ہوگا ، جہاں مدارس کی رجسٹریشن بآسانی سہولت کے ساتھ ہو جایا کرے گی اسی طرح جیسے دینی مدارس کی رجسٹریشن پہلے وزارت صنعت میں ہوتی تھی ، اس کے لیے کوئی الگ عملہ نہیں تھا، کوئی الگ دفاتر نہیں تھے ، جیسے دیگر اداروں اور سوسائٹیوں کی رجسٹریشن ہوتی تھی اسی طرح دینی مدارس کی بھی رجسٹریشن ہو جایا کرتی تھی ، مگر یہ کہ ایک الگ ڈائریکٹریٹ قائم ہوگا ، اس کا الگ عملہ ہوگا ، با قاعدہ اربوں روپے کا فنڈ ہوگا، پھر اس ادارے کے پورے ملک میں ذیلی ادارے ہوں گے؛ یہ چیز معاہدے میں شامل نہیں تھی بلکہ یہ تو سراسر دیوالیہ پن کے قریب پہنچنے والے قومی خزانے پر مزید بوجھ ڈالنے والی بات تھی ۔ یہ سب یک طرفہ طور پر کیا گیا جبکہ معاہدے میں یہ بات شامل تھی کہ ایسے کسی بھی اقدام سے قبل اتحاد تنظیمات مدارس کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ نیز ڈائریکٹوریٹ کے تحت اتنے بڑے منصوبے کا لازمی نتیجہ یہ قرار دیا جائے گا کہ دینی مدارس اسی ڈائیریکٹوریٹ کے ماتحت اور تابع سمجھےجائیں گے
(جاری ہے )
ملک بھر سے سے مزید