• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 (گزشتہ سے پیوستہ)

میں کافی عرصے سے اپنے ان کالموں میں اس بات کی طرف توجہ مبذول کراتا رہا ہوں کہ سندھ اور دیگر چھوٹے صوبوں کے موجودہ نظام کو وفاقی نظام کہا جارہا ہے جبکہ چھوٹے صوبوں اور خاص طور پر سندھ کے معاشی اور سیاسی ماہرین موجودہ نظام کو ’’وفاقی نظام‘‘ کے طور پر تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں‘ ان کا مطالبہ ہے کہ اس نظام کو حقیقی معنوں میں مساوی وفاقی نظام بناکر چھوٹے صوبوں کی شکایات کا ازالہ کیا جائے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اکثر حلقے سندھ اور دیگر چھوٹے صوبوں کی شکایات کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں‘ یہی وجہ ہے کہ کئی مخصوص اطراف سے میرے کالموں پر اعتراضات کئے جارہے ہیں ۔ وقت آگیا ہے کہ معاملات کا انصاف کے اصولوں پر حل تلاش کیا جائے۔ اس سلسلے میں پہلے بھی یہ تجویز دے چکا ہوں کہ اس اہم ایشو کی انتہائی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کی جائےاور سارے صوبوں اور مرکز کے نامزد کئے جانے والے ماہرین پر مشتمل ’’ٹرتھ کمیشن‘‘ بنایا جائے جو ان ایشوز کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرے جو حلقے میرے کالموں پر کچھ عجیب قسم کے اعتراضات کررہے ہیں ان کا میری اس تجویز پر کیا ردعمل ہے؟ فوری معلوم کرکے کوئی ایک فیصلہ کیا جائے‘ ابھی میں ان ایشوز پر اپنی آرا ظاہر کررہا تھا تو خاص طور پر سندھ کے جائز مفادات کے حوالے سے کچھ اور ایشوز بھی سامنے آگئے ہیں‘ ان ایشوز پر سندھ کی قوم پرست اور ترقی پسند جماعتیں مسلسل احتجاج کررہی ہیں اور سندھی اخبارات ان کی آرا کو مسلسل شائع کررہے ہیں ان کے خلاف سخت سے سخت بیان جاری کئے جارہے ہیں اور کچھ حلقوں کی طرف سے ان ایشوز کے بارے میں کافی پریشان کن اعداد و شمار بھی جاری کررہے ہیں‘ ان میں سے ایک ایشوڈیجیٹل مردم شماری کاہےجبکہ دوسرے ایشو کا تعلق اس بات سے ہے کہ پنجاب میں ایک بار پھر زیادہ سے زیادہ پانی نکالنے کی وجہ سے دریائے سندھ کے سندھ والے حصے میں پانی کی شدید کمی پیدا ہوگئی ہے جہاں تک ڈیجیٹل مردم شماری کا تعلق ہے تو یہ بتانا پڑے گا کہ اس مردم شماری کے تحت جو اعداد و شماری جاری کئے گئے ان کے خلاف سارے سندھ میں شدید ردعمل ہوا‘ جہاںسندھ کی مختلف سیاسی پارٹیوں کی طرف سے احتجاج ہوا وہیں سندھ کی قوم پرست اور بائیں بازو کی سیاسی تنظیموں نے سندھ کے مختلف علاقوں میں دھرنے دیئے اور ایک ضلع سے دوسرے اضلاع تک احتجاجی جلوس نکالے ۔ سندھ کے اخبارات میں ان کی تفصیلات کے علاوہ احتجاجی مضامین بھی شائع ہوئے اور ابھی تک شائع ہورہے ہیں۔ سندھ بھر سے ایک ہی آواز اٹھ رہی ہے کہ سندھ کی آبادی دوسرے صوبوں کی آبادی سے کم دکھاکر سندھ سے کیا گیا ’’دھوکا‘‘ بے نقاب ہوگیا ہے‘ ان اعداد و شمار کے مطابق دوسرے صوبوں کے مقابلے میں سندھ میں فی گھر کی آبادی کم دکھا کر سندھ کی آبادی 77 لاکھ کم دکھائی گئی ہے‘ ان اعداد و شمار کے مطابق کے پی کے میں فی گھر آبادی کی شرح 6.96 فی صد‘ پنجاب 6.47‘ بلوچستان 6.46 فیصد اور سندھ میں 5.66 فیصد شرح دکھائی گئی ہے لہٰذا سندھ میں فی گھر آبادی باقی صوبوں سے کم دکھائی گئی ہے۔ سندھ کے ان حلقوں کے مطابق پنجاب میں فی گھر آبادی کی جو شرح دکھائی گئی ہے‘ اس شرح سے سندھ کی آبادی 6 کروڑ 34 لاکھ ہوتی ہے مگر اسے کم کرکے فقط 5 کروڑ 57 لاکھ بتایاگیا۔ ان اعداو شمار کے ذریعے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ سندھ میں دیہی آبادی شہری آبادی سے کم دکھائی گئی ۔ ان اعداد وشمار کے مطابق سندھ کے دیہی علاقوں میں ایک گھر کی ایوریج آبادی کی شرح 5.45 فی گھر دکھائی گئی جبکہ سندھ کی شہری آبادی کے ہر گھر کی اوسط آبادی زیادہ دکھائی گئی ہے لہٰذا سندھ کی شہری آبادی 3کروڑ دکھائی گئی ہے جبکہ سندھ کی دیہی آبادی 2کروڑ 56لاکھ دکھائی گئی ہے۔ ماہرین کے مطابق شہری علاقوں کے مقابلے میں دیہی علاقوں کی آبادی زیادہ ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں بھی جو اعداد و شمار دیئے گئے ہیں وہ بھی ماہرین کے مطابق درست نہیں ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق کے پی میں دیہی آبادی 2کروڑ 47لاکھ 73ہزار 492اور شہری آبادی 57لاکھ 35ہزار 428، پنجاب میں دیہی آبادی 59.9فیصد اور شہری آبادی 40.71فیصد، بلوچستان میں شہری آبادی 30.90فیصد اور دیہی آبادی 69 فیصد ظاہر کی گئی جبکہ سندھ واحد صوبہ ہے جس کی شہری آبادی 53.97فیصد اور دیہی آبادی 46 فیصد بتائی گئی ہے۔اس لئے ملک بھر میں مردم شماری کے جاری اعداد و شمارسندھ قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین