• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر عمران خان فوج کے ساتھ اپنی لڑائی سے ایک قدم پیچھے ہٹنا چاہ رہے ہیں تو یہ اچھی بات ہے۔ اس سلسلے میں اُن کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔

 چند ہفتوں سے عمران خان آرمی چیف اور فوج پر اپنے براہ راست حملوں اور تنقیدسے پرہیز کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں اور اُن کی اور اُن کے پارٹی رہنمائوں کی طرف سے اب جو بیانیہ سامنے آ رہا ہے،اس میں وہ تحریک انصاف کی فوج کے ساتھ کشیدگی کی ذمہ داری ن لیگ اور پیپلز پارٹی پر ڈال رہے ہیں۔ 

اس میں حقیقت ہے یا نہیں اس بحث میں پڑے بغیر لگتاہے کہ اب عمران خان، تحریک انصاف کی فوج اور اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کا خاتمہ چاہتے ہیں کیوں کہ اس لڑائی سے اُن کا کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ اس لڑائی سے نہ صرف مقبولیت کے باوجود وہ اقتدار سے دور ہوئے بلکہ اُن کیلئےمشکلات میں بھی کمی نہیں ہو رہی۔ 

ایک تو اس بات کا اعتبار نہیں کہ عمران خان کب کوئی نیا ٹرن لے لیں اور پھر سے آرمی چیف اور فوج پر برس پڑیں۔ بہرحال عمران خان اور تحریک انصاف کی فوج اور اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کا اب خاتمہ ہونا چاہیے۔ 

بلکہ کسی بھی سیاسی جماعت اور فوج کے درمیان اگر تلخیاں ہوں تو اُنہیں ختم ہونا چاہیے کیوںکہ یہ تلخیاں فوج اور عوام کے درمیان دوری پیدا کرتی ہیں جو کسی صورت پاکستان جیسا ملک برداشت نہیں کر سکتا۔

اگر تحریک انصاف کی بات کی جائے تو یہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے جس کی فوج سے لڑائی کسی بھی طور پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ اب یہ لڑائی کیسے ختم ہو سکتی ہے یہ اصل سوال ہے۔ اور کیا اس لڑائی کے خاتمے کا مطلب یہ ہونا چاہیے کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو جیل سے نکال کر اقتدار کی کرسی پر بٹھا دے؟

کیا جس طرح عمران خان کہتے ہیں اُنکے فوج سے مذاکرات ہونے چاہئیں،اگر یہ مذاکرات نہیں ہوتے تو کیا تحریک انصاف اور فوج کے درمیان لڑائی جاری رہے گی؟ عمران خان کو سمجھنا ہو گا کہ جو تلخیاں گزشتہ دو سال کے دوران پیدا ہو چکیں وہ اُن کے ایک بیان سے ختم نہیں ہو سکتیں۔ 

خان صاحب اور تحریک انصاف کو فوج مخالف پالیسی سے پیچھے ہٹنا پڑے گا اور اس کیلئے تحریک انصاف کے بانی چیئرمین کو اپنے تمام پارٹی رہنماوں کو بالعموم اور اپنے سوشل میڈیا کو بالخصوص فوج مخالف پروپیگنڈا سے باز رکھنا ہوگا اور اس کیلئے عمران خان کو خود بیان جاری کرنا چاہیے۔ 

اگر ایسا کیا جاتا ہے اور اس پالیسی پر عمران خان اور اُن کے پارٹی رہنما اور سوشل میڈیا کاربند رہتا ہے تو اس سے فوج کی طرف سے بھی ہر پریس کانفرنس اور ہر کور کمانڈر میٹنگ میں تحریک انصاف کے حوالے سے سخت موقف میں کمی کا امکان ہے۔

اگر عمران خان اور تحریک انصاف کے Verified سوشل میڈیا اکائونٹس سے فوج اور آرمی چیف کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جاتا رہے گا تو پھر دوسری طرف سے تحریک انصاف کو انتشاری ٹولہ اور اس کے سوشل میڈیا کو ڈیجیٹل دہشت گردی سے جوڑا جایا جاتا رہے گا۔ 

عمران خان حملے بند کر دیں تو دوسری طرف سے بھی جوابی حملہ بند ہونے کی توقع ہے۔ لیکن اس جنگ بندی کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ اسٹیبلشمنٹ کوئی نیا کھیل شروع کر دے۔ مقصد صرف یہ ہو کہ فوج اور پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے درمیان لڑائی ختم ہو۔ 

عمران خان اور تحریک انصاف کے خلاف جو مقدمات ہیں اُن کے میرٹ کے مطابق عدالتیں فیصلہ کریں، جو جھوٹے مقدمات ہیں وہ ختم ہوں۔ مذاکرات سیاسی جماعتوں کے درمیان ہی ہونے چاہئیں۔ الیکشن کے متعلق تحریک انصاف کی شکایتوں کا فیصلہ بھی عدالتوں کے ذریعے ہی ہونا چاہیے۔ 

سیاسی معاملات سیاستدانوں کے درمیان ہی حل ہونے چاہئیں، عمران خان اگر نئے الیکشن چاہتے ہیں تو بھی اُنہیں سیاسی جماعتوں سے بات کرنی چاہیے۔ ایک طرف سیاستدان سیاسی معاملات میں فوج کی طرف دیکھنا بند کر دیں تو دوسری طرف فوج اور اسٹیبلشمنٹ اپنے آپ کو غیر سیاسی کرنے کا فیصلہ کر لے۔ اسی میں پاکستان کا بہترین مفاد ہے۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین