(گزشتہ سے پیوستہ )
۴)پروفیسر عبدالرب رسول سیاف، سربراہ اتحاد اسلامی افغانستان کا ہدیہ تبریک
’’ شیخ الحدیث مولانا عبدالحق ؒ ان کی عظیم تاریخی مساعی جہاد افغانستان میں ،مجاہدین کی بھرپور سرپرستی محاذ جنگ کے اکثر جرنیلوں کی خصوصی تعلیم و تربیت افغان ملت کے اکابر علماء و مشائخ کو خصوصی ہدایات جہاد افغانستان کے ہر نازک مرحلے میں ان کی پرسوز دعائیں اور مفید ترین مشوروں اور خالص دینی رہنمائی کے صدقے آج ہم آزاد افغانستان میں آزادی کی سانس لے رہے ہیں، افغان ملت کا ہر فرد شیخ الحدیث مولانا عبدالحق ؒ کے تقدس ،جہاد میں سبقت اور عظمت کا معترف ہے‘‘ (مکتوبات مشاہیر)
ایک بڑے منظم جہاد گروپ کے سربراہ پروفیسر عبدالرسول سیاف مولانا کے پاس آتے رہے ۔ ۹ جنوری ۱۹۹۱ء کو دارالعلوم آکر ایک گھنٹہ کے خطاب میں مولانا اور دارالعلوم کے کردار کو سراہا ۔( مکتوبات مشاہیر ،ج ہفتم ،ص۱۷۴)
افغانستان کے سابق صدر جناب پروفیسر برہان الدین ربانی مختلف مرحلوں میں بار بار دارالعلوم حقانیہ آتے رہے انہوں نے اپنے خطوط اور خطبات میں حقانیہ کے تاریخی کردار کو ایک حقیقت قرار دیا، ایک موقع پر خطاب میں کہاکہ حقانیہ ہمارے لئے بخارا کا مدرسہ میرعرب بن چکا ہے جس نے روسی انقلاب میں کردار ادا کیا وہی کردار آج روس کے دوسرے انقلاب میں حقانیہ ادا کررہا ہے۔ (مکتوبات مشاہیر ج،ہفتم ص ۱۸۰ تا ۱۸۸)
۵)وزیراعظم نواز اشریف کا خراج تحسین اور اعتراف ِ عظمت و کمال
افغانستان اور پاکستان کے ممتاز علماء اور رہنماؤں خصوصاً اکوڑہ خٹک کے مولانا عبدالحق مرحوم کے (جہاد افغانستان میں) کردار کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں ان کی تقلید میں ان کے صاحبزادے (مولانا سمیع الحق) کی خدمات بھی لائق تحسین ہیں۔ (ٹی وی اور ریڈیو پر قوم سے خطاب ۵ مئی ۱۹۹۲ء ساڑھے سات بجے شام ) (الحق خصوصی نمبر ،ص ۶۱۶)
جہاں تک افغان جہاد میں آپ کے ممدوح جہادی لیڈروں حکمت یار ،برہان الدین ربانی، استاد سیاف، کے بنیادی کردار کا تعلق ہے تو مدار خاتمہ کا ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ نے آخر میں ان لیڈروں کے جہادی کردار کو بے نقاب کردیاکہ سوویت یونین کی شکست کے بعد ان لیڈروں نے باہمی قتل و قتال کا بازار گرم رکھا۔ بے گناہ ہزاروں مسلمانوں کو اپنی ہوس اقتدار کی بھینٹ چڑھایا۔ افغانستان کو وار لارڈ کے نذر کیا۔ تیس لاکھ شہداء کے خون سے غداری کی اور جب مجبوراً طالبان آئے اور امن قائم کیا اور جہاد کو منطقی انجام ملک کی غیروں سے آزادی اور شریعت کے نفاذ تک پہنچانے کے لئے میدان میں کود پڑے تو یہ لیڈر اپنے قوم کے اس بہادر بچوں کے خلاف سینہ سپر ہوئے اور جب امریکہ نے روس کی جگہ تسلط جمایا اور دنیا بھر کے اسلام دشمن نیٹو کے شکل میں ملک پر مسلط کئے تو آپ کے یہ عظیم جہادی لیڈر امریکہ کے پٹھو حکمرانوں حامد کرزئی، اور اب اشرف غنی کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ ان کے پارلیمنٹوں میں بیٹھ گئے، دو تہائی مناصب اور عہدوں پر فائز ہوئے جناب حکمت یار نے تو حال ہی میں رسوائے زمانہ اشرف غنی سے شراکت اقتدار کا معاہدہ کیا۔ یہ تھا ان کے جہاد کا سوء عاقبۃ جس سے اللہ سب کو محفوظ رکھے۔
فاضل صحافی سلیم صافی صاحب کو دفاع پاکستان کونسل سے ناقابل برداشت تکالیف ہے کیونکہ وہ امریکی جارحیت ، نیٹو سپلائی اور ڈرئون حملوں کے خلاف واحد پلیٹ فارم ہے۔جنوری ۲۰۰۱ء میں جب مولانا سمیع الحق کی دعوت پر ملک کی سیاسی ،دینی اور جہادی طاقتیں اکٹھی ہوئیں اور کونسل کے سربراہ کے لئے مولانا سمیع الحق پر سب کا اتفاق ہوا تو سب سے زیادہ اس وقت کے حکمران امریکی پٹھو پرویز مشرف کے نفس ناطقہ اور وزیر داخلہ ریٹائرڈ جرنیل معین الدین حیدر تلملا اٹھے۔ او رپریس کانفرنسیں کرتے رہے مولانا سمیع الحق کے خلاف اسلحہ لہرانے کا مقدمہ درج کرایا ،اس کونسل میں آپ کے ممدوح مرحوم قاضی حسین احمد اور اس کی پوری جماعت پوری قوت سے مولانا کے شانہ بشانہ کھڑی تھی اور آج بھی پوری استقامت سے ساتھ دے رہی ہے اور تو اور افغان جہاد کی عمر بھر مخالفت کرنے والے مرحوم اجمل خٹک بھی تاسیسی اجلاس میں شریک ہوئے اور مولانا کی مکمل تائید کا اعلان کیا ۔بریلوی مکتب فکر کے دونوں عظیم قائد مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم ،مولانا عبدالستار نیازی نے بھی کھل کر دفاع کونسل کا مرتے دم تک بھرپور ساتھ دیا۔
اور اگر آپ کے بقول مولانا سمیع الحق مقتدر قوتوں کی ایماء پر یہ سب کچھ کرتے آرہے ہیں تو چلیں ایک لحظہ کے لئے یہ مفروضہ یونہی سہی ، اپنے وطن کی سرحدوں کی خلاف ورزی پر نکلتے ہیں۔امریکہ اور مغرب کے مظالم کے خلاف نکلتے ہیں۔ پانامہ لیکس والے لٹیروں کے دفاع میں تو سینہ تان کے کبھی کھڑے نہیں ہوئے ۔ جنرل مشرف اور زرداری بچاؤ جیسے گرتی حکومتوں کے نہ کبھی پشتبان و ترجمان بنے ۔ مولانا سمیع الحق نے بارہا پریس کانفرسوں میں پریس والوں کے سوال کو دو ٹوک جواب دیا کہ اگر پاکستان کی درپردہ قوتیں بیرونی قوتوں کے خلاف دفاع کونسل کے ہیں تو اس مقدس اور حب الوطنی پر مبنی مشن میں پس پردہ قوتیں درپردہ کیوں رہیں۔ وہ کھل کر سامنے آجائیں ہم نے انکے پیچھے کھڑے ہوکر ملک کی آزادی اور تحفظ کیلئے کھل کر ساتھ دیں گے ۔آپ بھی کئی کالم اسٹبلمشمنٹ کی ضرورتوں کے تحت لکھتے رہتے ہیں حتیٰ کے افغانستان حکومت کے بھی آپ بہت قریب سمجھے جاتے ہیں، اس کی بھی توجیہ آپ ہی کرسکتے ہیں؟ پھر مولانا کے خلاف تازہ کالم کے نکات بھی منسٹر کالونی کے ’’دائمی سرکاری مہمان‘‘کی ’’خاص فرمائش ‘‘ اور ’’خاص ہدایات ‘‘کے سلسلے میں لکھوایا گیا ہے۔ اسی طرح آپ نے دو تین مرتبہ مولانا کے متعلق لکھا ہے ، وہ نہ کبھی افغانستان جہاد کے لئے گئے ہیں ،اور قاضی حسین احمد ؒ کی اسلحہ والی ویڈیو کا ذکر کیا ہے، تو جناب چند تصاویرمولانا جلال الدین حقانی اوردیگر زعماء جہاد کے ساتھ خوست اور تورہ بورا کے محاذوں پر ملاحظہ ہوں جو مولانا کی انگریزی کتاب ’’افغان طالبان وار آف اڈیالوجی ‘‘میں ملاحظہ کریں۔ اس کے علاوہ آپ تسلسل کے ساتھ مولانا سمیع الحق صاحب کے بیٹوں کے متعلق لکھتے چلے آرہے ہیں کہ وہ کبھی جہاد کے لئے نہیں گئے ۔ تو ریکارڈ کی درستگی کے لئے نوٹ کرلیں کہ ان کے دونوں صاحبزادے مولانا حامد الحق حقانی اور مولانا راشد الحق سمیع جہاد افغانستان کے دوران باربار جاتے رہے ، اورخوست کے محاذ پر ان پر روسی جنگی جہازوں کی خطرناک بمباری میں اللہ تعالیٰ نے انہیں نئی زندگی بھی بخشی۔ مولانا فضل الرحمن خلیل ،مفتی جمیل بانی اقراء سکول، اور مولانا شیر علی شاہ ؒ بھی اس کے گواہ تھے ۔ ابھی تور غر بھی رشیئن فوجی قبضے میں تھا ان دنوں کی بات ہے توجناب جہاد پہ جانے کے لئے آپ سے سرٹیفیکیٹ لینے کی ضرورت نہیں تھی۔ ان دنوں آپ ہوائی چپل پہن کر غلیل سے محلہ کے گھر وں کے مٹکے توڑا کرتے تھے۔
شیشے کے گھر میں بیٹھ کہ پتھر ہیں پھینکتے
دیوار آہنی پہ حماقت تو دیکھئے