چوبیس فروری 1955کو ترکی اور عراق نے ایک معاہدے پر دستخط کئے جس کو اول بغداد پیکٹ اور پھر سینٹو کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اس معاہدے کی نوعیت گھوم پھر کر سلامتی کے مشترکہ امور کی طرف آتی تھی ۔اس معاہدے پر چھبیس فروری 1955کو ڈان نے امید ظاہر کی کہ پاکستان بھی جلد ہی اس معاہدہ کا حصہ بن جائےگا اور تحریر کیا کہ’’ طویل عرصے سے اس خطے میں پیدا ہونے والے خلا نے اسے جارحیت کا آسان نشانہ بنا رکھا ہے ۔ لیکن جب کراچی سے استنبول تک کے ہلال کو دفاعی معاہدوں کے فولاد کے ذریعے مضبوط بنا دیا گیا ، جو بالآخر مشترکہ اتحاد پر منتج ہونگے تو نتیجے کے طور پر پیدا ہونے والی قوت لازم طور پر جارحیت کے خلاف سد راہ ثابت ہوگی ‘‘۔ پاکستان اس وقت یہ کوششیں کر رہا تھا کہ انڈیا سے اس کے تعلقات کی راہ میں جو مسائل حائل ہیں ان کو حل کر لیا جائے اور اسی لئے اس وقت کے گورنر جنرل غلام محمد نے 25 تا28 جنوری 1955کے دوران انڈیا کا دورہ کیا تھا۔ اس حقیقت کو تسلیم نہ کرنا کہ پاکستان کو آزادی کے روز اول سے انڈیا اور افغانستان کی جانب سے سلامتی کے حوالے سے شدید خطرات در پیش تھے در حقیقت حقیقت کا منہ چڑانا ہوگا اور اسی غرض سے پاکستان کو اپنی سلامتی کو برقرار رکھنے کیلئے ادھر ادھر ہاتھ مارنے پڑے ۔ اس میں بہت سی غلطیاں بھی ہوئیں ۔ سینٹو کو برطانیہ اور امریکہ کی سرپرستی حاصل تھی مگر اس پر عرب دنیا میں بہت مخالفت موجود تھی ۔ مصر کے وزیر خارجہ محمود فوازے نے عراق کے اس اقدام کی پر زور مذمت کی ۔ شام کے مختلف شہروں میں تو اس کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے ۔ سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کے ترجمان اخبار پراودا نے اس معاہدہ کی مخالفت کرتے ہوئے لکھا کہ’’ یہ ایک فوجی معاہدہ ہے ۔ یہ بیانات قطعی طور پر غلط ہیں کہ ترکی اور عراق اس خطے کی سلامتی کو مستحکم بنانا چاہتے ہیں ۔ سوویت یونین ان تمام خفیہ سازشوں کو نظر انداز نہیں کر سکتا ہے ‘‘۔
پاکستان نے مارچ 1955ءمیں کہا کہ ’’یہ ایک ایسے سلامتی کے نظام کی طرف اہم قدم ہے جس سے اپنی جغرافيائی پوزیشن کے سبب پاکستان کو بھی فطری طور پر متعلق ہونا چاہئے ۔مگراس سے کچھ عرصہ قبل ہی ( سابقہ ) مشرقی پاکستان میں اس سب کیخلاف رائے عامہ ہموار ہو چکی تھی اور اس رائے عامہ کو ہموار کرنے میں مولانا بھاشانی پیش پیش تھے جو خود ایک کمیونسٹ نظریات رکھنے والے شخص تھے۔ 1954میں مسلم لیگ حزب اختلاف کے اتحاد یونائیٹڈ فرنٹ سے بری طرح صوبائی انتخاب ہار گئی ۔ یونائیٹڈ فرنٹ دو سو تیئس جبکہ مسلم لیگ بمشکل دس نشستوں پر کامیاب ہوئی ۔ ان انتخابات کا اہم ترین موضوع پاکستان اور امریکہ کے فوجی تعلقات تھے جس کی یونائیٹڈ فرنٹ نے ڈٹ کر مخالفت کی ۔ مخالف سیاسی جماعتوں نے بنگال میں امریکہ اور پاکستان کے فوجی معاہدوں کے خلاف دن منانے کیلئے جلوسوں کو منعقد کیا ۔ مشرقی بنگال کی صوبائی اسمبلی کے ایک سو باسٹھ نو منتخب اراکین نے ایک بیان پر دستخط کئے جس میں امریکہ کے ساتھ فوجی معاہدے کرنے کی مذمت کی گئی ۔ خیال رہے کہ اس وقت ان معاہدوں کی افادیت یا نقصانات میرے زیر بحث نہیں ہے بلکہ میں صرف ان کی بنیاد پر ملک کے دونوں بازوؤں میں پیدا ہونے والی خلیج کو بیان کر رہا ہوں ۔ ان حالات کے سبب نہ صرف پاکستان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے صوبائی سطح پر مکمل اختلاف سامنے آیا بلکہ دفاعی امور پر بھی دونوں بازوؤں میں رائے کا مکمل اختلاف بھی قومی سلامتی کو ڈسنے کیلئے پھن تیار کرنے لگا ۔ حالاں کہ کچھ عرصہ بعد میں عوامی لیگ کے صدر اور یونائیٹڈ فرنٹ کے اہم ترین رہنما حسین شہید سہروردی پاکستان کے وزیر اعظم کے منصب پر بھی فائز ہو گئے مگر جو سوچ کا اختلاف پنپتا ہی چلا گیا ۔ اس سب کو دہرانے کا خیال اس وجہ سے آیا کہ پاکستان کی جب سے چین سے معاشی شراکت داری قائم ہوئی ہے اس وقت سے ہی وہ بے چینی جو بلوچستان میں بار بار سر اٹھاتی ہے اس کو اس معاشی شراکت کے حوالے سے مخالفت بطور نعرہ دستیاب ہو گیا ہے ۔ ابھی بلوچ یکجہتی کمیٹی کے حالیہ دھرنے اور اس سے قبل مستقل واقعات سب کے سامنے ہیں ۔ اس وقت محسوس یہ ہوتا ہے کہ بلوچستان میں جاری بد امنی کو شعوری طور پر جواز فراہم کرنے کی غرض سے یہ اقدام کیا گیا کہ خواتین اور بچوں کو بطور ڈھال سامنے رکھا جائے اور کسی نہ کسی مقام پر نہتے افراد کو سلامتی کے اداروں سے براہ راست تصادم کا راستہ اختیار کر وا کر خدا نخواستہ کچھ جانوں کو رزق خاک بنا کر ’’نہتے شہدا‘‘ بھی حاصل کر لئے جائیں ۔ اس لئے لازمی ہے کہ یہ مطالبہ کہ بلوچستان کے وسائل پر سب سے پہلے وہاں کے مقامی باشندوں کا حق ہے حقیقی معنوں میں تسلیم کر لیا جائے تا کہ بلوچستان میں کسی بھی سطح پر دیگر صوبوں کے عوام سے ہٹ کر سلامتی و خارجہ معاملات کو دیکھنے کی سوچ کو ختم کیا جا سکے کیوں کہ اگر اختلاف زیادہ بڑھ جائے تو ایسی سوچ بہت خطرناک ثابت ہوتی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)