• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ چاہتے ہیں کہ میں خدمت گزار جج بن جاؤں، آپ ہمیں کس طرف لے کر جا رہے ہیں، جسٹس گل حسن

جسٹس حسن اورنگزیب---فائل فوٹو
جسٹس حسن اورنگزیب---فائل فوٹو

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کے لاپتہ کارکن کی بازیابی کے کیس میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی کے لاپتہ کارکن فیضان کی بازیابی کی درخواست پر سماعت ہوئی۔

سماعت کے دوران جسٹس حسن اورنگزیب نے کہا کہ آئین کو تبدیل کر دیں، بنیادی حقوق اس میں سے نکال دیں اور ہمارا دائرہ اختیار ختم کر دیں، ملک کو اسی طرح چلائیں، مجھے نہیں معلوم اسٹیٹ اس سے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے، آپ اس کی گرفتاری ڈال دیں ہم کچھ نہیں کہیں گے لیکن ملک اس طرح نہ چلائیں، وزارت دفاع، وزارت داخلہ اور اسٹیٹ سب اس سے خوش ہیں؟ سمجھ نہیں آرہی یہ کیا ہو رہا ہے، اس سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں، پہلے جس بینچ میں کیس تھا انہوں نے لکھا ہے یہ جبری گمشدگی کا کیس ہے، یہ ظالمانہ عمل ہے، اس صورتحال میں آئینی عدالتوں کو کیا کرنا چاہیے؟ دنیا بھی دیکھ رہی ہے پاکستانی عدالتیں ان کیسز میں کیا کر رہی ہیں، یا پھر یہ کہیں دنیا یہاں آئے سرمایہ کاری کرے، لوگ مسنگ ہوں گے، عدالتیں بھی کچھ نہیں کرسکیں گے، وفاقی حکومت کا مطلب وزیرِ اعظم اور وفاقی کابینہ ہے اور ذمے داری آخرکار ایگزیکٹو ہیڈ پر آتی ہے۔

سرکاری وکیل نے کہا کہ درخواست گزاروں نے صاف ہاتھوں کے ساتھ عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹایاجس پر جسٹس حسن اورنگزیب نے کہا کہ انہوں نے صاف ہاتھوں سے درخواست دائر نہیں کی، اس لیے درخواست خارج کردیں؟ آپ چاہتے ہیں کہ میں خدمت گزار جج بن جاؤں؟ یہ گندے درخواست گزار ہیں ہم درخواست مسترد کر دیتے ہیں، میں سمجھ نہیں پا رہا کہ آپ ہمیں کس طرف لے کر جا رہے ہیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب آپ ہی مجھے بتا دیں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ حکومت اگر اسے جبری گمشدگی کا کیس کہتی ہے تو دیکھے کہ یہ کس کے کہنے پر ہوا، حکومت کو اس معاملے پر اغواء کاروں کےساتھ بیٹھنے کی ضرورت ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ تو ہمیں نہیں پتہ کہ اغواء کار کون ہیں۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ایک ساتھی جج نے سخت آرڈر کیا تو حکومتی پروپیگنڈا مشینوں نے اس کے خلاف پروپیگنڈا شروع کر دیا، میں اس کیس میں آرڈر پاس کروں گا، یہ انا کا ایشو کیوں بنایا گیا ہے؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ پنجاب پولیس نے اس متعلق تحقیقات کے لیے پوری کوشش کی، عدالت اٹارنی جنرل کو کہے تو وہ وزیرِ اعظم سے ٹاسک فورس بنانے کی بات کر سکتے ہیں۔

جسٹس حسن اورنگزیب نے سیکریٹری داخلہ سے سوال کیا کہ آپ کیا کہیں گے؟ صرف رپورٹ دیں گے؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکریٹری دفاع 11 اگست سے ملک سے باہر ہیں، جوائنٹ سیکریٹری موجود ہیں، ایشو ایسا ہے لیکن اس میں دائرہ اختیار کا معاملہ بھی ہے۔

عدالت نے کہا کہ آپ فیڈریشن ہیں، آپ کے پاس اختیار ہے، آپ کے پاس سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری داخلہ ہیں۔

قومی خبریں سے مزید