پیرس اولمپک اسٹیڈیم میںایک ایسا فائنل تھا جس میں پاکستان کا جھنڈا اور انڈیا کا جھنڈا ساتھ ساتھ اوپر چڑھتے نظر آرہے تھے، آہستہ آہستہ پاکستان کا جھنڈا ذرا اوپر ہو گیا اور پھر پورے اسٹیڈیم میں تالیاں اور پاکستان کا جھنڈا سب سے اوپر تھا۔ ہر گھر اور اسٹیڈیم میں دیکھنے والوں کی آنکھوں میں، پاکستانی کی کامیابی پر خوشی کےآنسو تھے۔ ہائے! ہم لوگ۔ چالیس سال کے بعد ایک نامعلوم گاؤں نمبر101 کے مستری کا بیٹا پوری دنیا کے سامنے کامیابی کے اسٹینڈ پر کھڑا گولڈ میڈل پہن رہا تھا۔ پاکستان کے ہر گھر کی چھت اور گلی میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ بےساختہ گونج رہا تھا۔ دو دن تک شادیانے بجتے رہے، اعلانات ہوتے رہے۔ ہماری طرف سے 10 کروڑ، ہماری طرف سے 5کروڑ، ہماری طرف سے زیرِ تعمیر بلڈنگ میں ایک فلیٹ دینے والوں کے نام ٹی وی اسکرین پر گونجتے رہے۔ اس جذباتی قوم کا وزیر اعظم بھی جذباتی ہوکر بولا خود ایئر پورٹ جا کر استقبال کرونگا۔ ایجنسیوں والے ملازم ہی ڈرانے کے لیے ہوتے ہیں۔ بہرحال ایئر پورٹ پر محمود و ایاز سب ایک تھے سرکار نے اور عوام نے جی بھرکر گود ہی میں نہیں اٹھایا بلکہ ڈبل ڈیکر بس میں اسکے پورے گاؤں کے غریب لوگوں کو لاہور شہر کی سیر کرائی اور متوالے اس کو پنڈ101 تک ناچتے اور ڈھول بجاتے پہنچ گئے۔
جیسے کرکٹ میں چیمپئن بننے والے ایسا استقبال لارڈز سے لیکر چار برس پہلے تک دیکھ رہے تھے۔ اس استقبال میں جوش اور جذبے کو ذرا ٹھنڈا کر کے، وزیر اعلیٰ پنجاب کو ذمہ داری اٹھانی ہو گی۔ پہلے تو یہ کہ جن جن نے اعلانات کیے ہیں۔ ان سے وصولی کر کے یہ رقم فوراً بینک میں جمع کر دی جائے۔ جس نے فلیٹ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اس سے فلیٹ کی چابی لینے اور پورے سرمائے کو اکٹھا کرنے کو ایک معتبر پڑھے لکھے انجینئر کو ذمہ دار بنا کے قریبی علاقے میں زمین لیکر، حالات اور ضرورت کے مطابق فیکٹری قائم کر کے، مشینری اور دیگر اخراجات حکومت کے ذمے، مگر یہ فیکٹری انکے گاؤں کے لڑکے لڑکیوں کو تربیت دیکر، سال بعد، اس کے ملکیتی اور فیکٹری چلانے کی ساری ذمہ داری گولڈ میڈلسٹ ارشد ندیم اور ضروری تکنیکی اسٹاف کو دی جائے۔ تعمیر کے مراحل میں بھی دیگر اداروں یعنی سریا و دیگر آلات بھی بڑے بزنس ہولڈرز سے لئے جائیں۔ بی بی مریم! تم اگر ڈاکٹر یونس (بنگال) کی طرح دائمی خوشی اور ناموری چاہتی ہو تو بسم اللہ کرو اور سال بھر میں اپنے باپ کی جائیداد کا کچھ حصہ جو تمہارے نام کا ہو، وہ بھی لگا کر مثال قائم کرو کہ لڑکیاں وراثت میں حصہ وصول کر کے، قومی خدمت کے منصوبوں پر لگاتی ہیں۔ دنیا میں بہت لوگوں نے ایسا کیا، تاریخ انہیں یاد رکھتی ہے۔
اب آئیں۔ ہم اپنی 40 سالہ فروگزاشتوں پر بھی نظر دوڑائیں۔ یہ بچہ ارشد یا ہاکی کے کھلاڑی اپنے بل بوتے پر وہاں پہنچے جہاں دنیا نے مانا اور آپ نے، صدر مملکت نے بھی ظہرانے کے لیے بلایا۔ مگر وہ لوگ جو تمام کھیلوں (مع) کرکٹ کے لیے عمارتیں اور بھاری بھرکم بجٹ رکھتے ہیں۔ وہ رقم کہاں خرچ کی جاتی ہے۔ ساری دنیا میں بچوں کی اہلیت اور کسی کھیل کی جانب رغبت دیکھ کر، انہیں منتخب کیا جاتا ہے۔ پھر متعلقہ تربیتی مرکز سے منسلک کر کے، انکی ورزش، صحت اور خوراک مقرر کی جاتی ہے۔ جس میں تو 13، 14سال کی یورپی ملکوں کی لڑکیاں جمنا سٹک میں کمال دکھا کر گولڈ میڈل حاصل کرتی ہیں۔ ورنہ ہماری کرکٹ کاسا حشر ہو کہ ایک دن کھیلنے کے بعد، کسی کا کندھا اتر جاتا ہے، کسی کے پیر میں موچ آ جاتی ہے۔ اس کا علاج بھی سرکاری سطح پر کیا جاتا ہے۔ چونکہ ان سب کی باقاعدہ ورزش، دوڑنے اور جسم میں لچک ایسی پیدا کرنے کے الٹے ہاتھ سے بھی جھک کر جاتی بال پکڑلی جاتی ہے۔ ہمارے بچے تو بال کو اپنی طرف آنے کا منظر دیکھ کر پھر ذرا آگے بڑھ کر بال پکڑتے ہیں۔ وطن میں اور باہر دورے پر بھی خوراک کے ساتھ دشمنوں والا سلوک کرکے بوٹی بوٹی کھا جاتے ہیں۔ میں مریم بی بی کے ذمے یہ فرض کیوں رکھ رہی ہوں۔ واقعہ یہ ہے کہ کتنی بھی زیادہ رقم ہو، اگر اسکا استعمال زندگی بہتر گزارنے کی منصوبہ بندی سے نہ کیا جائے تو ایک مثال میں اچھی اور ایک بری دونگی۔ اچھی مثال تمہارے دادا کی ہےجنہوں نے سرائے سلطان سے پاکستان آکر زندگی گزارنے، بھٹو صاحب کی فیکٹری قومیانے کے باوجود، دن رات محنت کر کے اپنے بچپن کا گاؤں دوبارہ بنایا۔ اولاد کو سیاست سکھائی۔ پھر کیا ہوا ۔ تم سے زیادہ اور کون جانتا ہے۔
اب ایک بُری مثال اور انقلابی شاعر حبیب جالب کی ہم سب ایکٹوسٹ خواتین و حضرات نے سخن فہم سیاست دانوں سے مدد لیکر جالب کے اعزاز میں مشاعرہ چھپ کر ضیاالحق کے دور ہی میں کروایا۔ سب شاعروں نے اپنی ٹکٹوں کا اہتمام بھی خود کیا۔ جمع شدہ رقم میں سے 5لاکھ کا ایک الگ گھر سرچھپانے کو نیردادا کی رہنمائی میں لیکر دیا۔ اب بچے ساڑھے تین لاکھ، وہ اعتزاز اور میں نے دستخط کر کے فکسڈ ڈیپازٹ میں یہ کہہ کر رکھوائے کہ یہ رقم بیٹیوں کی شادی کے وقت نکالی جائیگی۔ کہنے کو سب خوش ہوگئے مگر خدا گنجے کو ناخن نہ دے، جالب نے ہمارا وہ حشر کیا کہ اعتزاز کے کہنے پر وہ رقم بینک سے نکلوا کر انکے حوالے کی۔ اب کیا ہوا۔ اگلے دن میلاد ہوا دیگیں پکائی گئیں۔ اس کے اگلے دن قربانی کی گئی۔ عید کے کپڑے بنے اور پھر بقیہ ڈیڑھ لاکھ میں ایک پرانا ڈبہ بزنس کے طور پر بیٹوں نے چلانے کے لئے لیا۔ چند مہینے چودھویں رات رہی پھر اندھیرا۔ اس سے جالب صاحب کی شاعری پہ کوئی فرق نہیں پڑا۔ انہوں نے بی بی بے نظیر کے سامنے پڑھ دیا کہ
ہر بلاول ہے ملک کا مقروض
پاؤں ننگے ہیںبے نظیروں کے
اب تم سمجھی بی بی وزیر اعلیٰ پنجاب۔